ڈاکٹروں کی ایک بین الاقوامی تنظیم ’ڈاکٹرز ود آوٹ بارڈز‘ یا (ایم ایس ایف) کا کہنا ہے کہ دنیا سانپ کاٹے کے سب سے موثر علاج سے اگلے برس محروم ہو جائے گی، جس سے ترقی پذیر ممالک میں ممکنہ طور پر ہزاروں افراد کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ تنظیم نے خبردار کیا ہے کہ ہمارے زہرکش ادویات کے ذخائر میں سانپ کاٹے کا علاج ‘فیوو¿ افریقہ’ نامی تریاق آئندہ سال جون میں ختم ہو جائے گا۔
خبررساں ادارے اے پی کے مطابق تنظیم نے بتایا کہ سانپ کے ڈسنے کے علاج میں استعمال ہونے والی اینٹی وینم سیریم ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنی ‘سنوفی پاسٹر’ تیار کرتی ہے۔ جس نے گزشتہ برس زہر کش دوا کی پیداوار بند کر دی تھی۔
تنظیم سے منسلک سانپ کاٹے کے ماہر ڈاکٹر گیبرئیل الکوبا نے کہا کہ ‘اب ہم ایک حقیقی بحران کا سامنا کر رہے ہیں’۔
انھوں نے کہا کہ سانپ کاٹے کے سنوفی پاسٹر علاج کو تبدیل کرنے کے لیے ہمارے پاس کم از کم دو سال تک کوئی متبادل زہر کش تریاق موجود نہیں ہے۔
دوا ساز کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں دیگر کمپنیوں کی سستی ادویات کی وجہ سے انھیں زہر کش دوا کی پیداوار بند کرنی پڑی ہے زہر کش دوا فیوو¿ افریقہ کی قیمت 250 ڈالر سے 500 ڈالر ہے۔ایک اندازے کے مطابق تقریبا ہر سال 50 لاکھ افراد کو سانپ کاٹتا ہے، جن میں سے ایک لاکھ اموات اور ہزاروں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو جسم کے کسی حصے میں زہر کے بعد انفیکشن پھیلنے کے باعث معذور ہو جاتے ہیں۔
سوئٹزرلینڈ میں اس ہفتے ہونے والے ایک اہم اجلاس سے قبل تنظیم نے کہا ہے کہ بین الاقوامی ایجنسیاں اس بات کی یقین دہانی کرائیں کہ ضرورت پڑنے پر سانپ کاٹے کا علاج دستیاب ہو گا۔
تنظیم کی طرف سے عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کو اس مسئلے پر معروف کردار ادا کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے ترجمان گریگوری ہارٹل نے کہا کہ تنظیم سانپ کاٹے کے مسئلے پر کام کر رہی ہے۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ زہر کش ادویات کی کمی کی ایک بڑی وجہ ڈاکٹرز خود بھی ہیں، جو زہر کش ادویات کا استعمال اس لیے نہیں کرنا چاہتے ہیں کہ یہ شاید غلط نسل کے سانپ سے تیار کی گئی ہے۔
سانپوں کا ڈسنا اور تریاق
سانپوں میں یہ صلاحیت نہین ہوتی ہے کہ وہ نتھنوں کے ذریعے باہر کی ہوا کو اندر کھینچ سکیں اور کوئی بو سونگھ سکیں۔ اسی لیے سانپ اپنی دوشاخہ زبان کو بار بار تیزی سے منہ سے نکال کر باہر شکار کی بو سونگھتا ہے۔سانپ کی یہ دوشاخہ زبان ایک حساس انٹینا کی طرح نا صرف فضا سے بو کو جذب کرتی ہے، بلکہ شکار کے مقام، سمت اور رفتار کے بارے میں معلومات مہیا کرتی ہے۔دنیا بھر میں سانپوں کی ہزاروں نسلیں ہیں لیکن تمام نسل کے سانپ زہریلے نہیں ہوتے ہیں اگر سانپ کے ڈسنے پر دو یا تین سرخ نشان پڑ جائیں تو سانپ کے کاٹے کے ماہر سمجھ جاتے ہیں کہ سانپ زہریلا تھا، جبکہ بغیر زہر والے سانپ کے کاٹنے سے نشان نہیں پڑتا ہے۔ البتہ ناگ سانپ کی ایسی نسل ہے جو انتہائی زہریلا ہوتا ہے، اس کے دانت انتہائی زہریلے اور نوکیلے ہوتے ہیں جس کی مدد سے اپنا زہر شکار میں بڑی سرعت سے اتار دیتا ہے۔سانپ کے جبڑے میں ایک تھیلی ہوتی ہے اور جب سانپ کانٹتا ہے تو سانپ کے سرنج نما دانتوں سے زہر انسان کے جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔فیوو¿ افریقہ نامی زہر کش دوا افریقہ اور یورپ وغیرہ میں سانپ کے ڈسنے کا ایک موثر علاج ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں جہاں سانپ کاٹے کا فوری علاج موجود نہیں ہے۔
سانپ کے کاٹے کا علاج خود سانپ کے زہر سے حاصل کیا جاتا ہے۔ زہر کش دوا فیوو¿ افریقی گھوڑوں سے حاصل کی جاتی ہے، جنھیں دس سے زائد سانپوں کی نسلوں جن میں افریقہ کے زہریلے سانپ بھی شامل ہیں، کے زہر والے حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں، اور بعد میں جب گھوڑوں میں اینٹی باڈیز پیدا ہو جاتے ہیں تو گھوڑوں کے خون سے اینٹی باڈیز کو نکال کر اینٹی وینم سیریم تیار کیا جاتا ہے۔ یہ تریاق جسم میں زہر کی گردش کی رفتار کو سست کر دیتا ہے۔