لکھنؤ: موسم کے رخ میں تبدیلی کے ساتھ ہی سردی میں اضافہ ہو گیا ہے اس کے باوجود ابھی تک انتظامیہ کی طرف سے کہیں بھی رین بسیرے نہیں دکھائی دیئے ہیں جس کی وجہ سے غریب و بے سہارا اور ایسے افراد جو گرمیوں میں کھلے آسمان کے نیچے گزر بسر کر کے اپنا وقت کاٹ لیتے تھے اب وہ پریشان ہیں، ان کو کہیں جائے امان نہیں مل رہی ہے۔ کسی وقت بھی موتی محل پل سمیت دیگر ایسے مقامات پر جہاں گرمیوں میں یہ لوگ رات گزارتے تھے ان کو دیکھا جا سکتا ہے جو کہرے اور سرد ہواؤں کے باوجود کھلے آسمان کے نیچے ٹھٹھر رہے ہوتے ہیں مگر کوئی بھی ان کی طرف توجہ دینے والا نہیں ہے۔
سردی میں بہت زیادہ سختی نہ ہونے کی وجہ سے سماجی تنظیمیں بھی ابھی ان کی طرف توجہ نہیں دے رہی ہیں ورنہ یہ سماجی تنظیمیں ان کیلئے رین بسیروں کے انتظامات کے ساتھ ہی کمبل وغیرہ تقسیم کر کے ان کی زندگی کو کچھ آسان بنا دیتی تھیں مگر اس بار بھی انہوں نے ابھی تک کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ سب سے زیادہ تو وہ لوگ پریشان ہیں جو مزدوری پیشہ اختیار کر کے یا پھر رکشا چلاکر روپئے کمانے کیلئے راجدھانی آئے ہیں تاکہ دیہات میں ان کے اہل و عیال سکون کی زندگی گزار سکیں۔ ایسے لوگوں کیلئے گرمیاں تو پریشانی کا سبب نہیں ہوتی مگر سردی میں ان کیلئے وقت گزارنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ اپنے گاؤں واپس جا چکے ہیں۔ وہ اس انتظار میں ہیں کہ یہاں جب ہر طرف رین بسیروں کا انتظام ہو جائے تو وہ دوبارہ شہر آئیں مگر ابھی تک رین بسیرے نہیں بنائے گئے ہیں حالانکہ چند دنوں قبل انتظامیہ نے الاؤکے ساتھ ہی رین بسیرے بنانے کے احکامات دے دیئے تھے۔ راجدھانی کا بلدیاتی ادارہ بھی ابھی خواب خرگوش میں ہے۔ وہ بھی اپنی ان سماجی ذمہ داریوں کی طرف ابھی تک نہیں متوجہ ہوا ہے جس کی وجہ سے بھی پریشانیاں بڑھی ہوئی ہیں۔ اگر ذمہ دار ادارے اور محکموں کے ساتھ ہی سماجی تنظیمیں اس جانب توجہ دے دیں تو یقینا غریبوں اور بے سہاروں کی پریشانیاں کم ہو جائیں لیکن شاید ان سب کو انتظار ہے ایسی سردی کا س سے دو چار جانیں ضائع ہو جائیں جس کے بعد یہ اپنے فرائض منصبی کی طرف توجہ دیں۔