سری نگر : وادی کشمیر میں بعد از نماز جمعہ ‘آزادی حامی احتجاجی مظاہروں’ کے خدشے کے پیش نظر دارالحکومت سری نگر کے پائین شہر میں کرفیو جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں پابندیاں نافذ رہیں جس کے باعث تاریخی جامع مسجد میں نماز کی ادائیگی مسلسل پندرہویں مرتبہ ادا نہ کی جاسکی۔
اس کے علاوہ سخت ترین پابندیوں سے ممبران اسمبلی کی رہائش گاہوں کے باہر بھی مجوزہ احتجاج کو بھی ناکام بنادیا گیا۔ تاہم کرفیو اور سخت ترین بندشیں عائد رہنے کے باوجود وادی میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعدمتعدد مقامات پر آزادی حامی ریلیوں اور جلوسوں کا انعقاد کیا گیا۔
بعض مقامات پر احتجاجی مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں جن میں کئی افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔ دوسری جانب ہڑتال کے باعث وادی میں معمولات زندگی جمعہ کو مسلسل 105 ویں روز مفلوج رہے ۔ پولیس نے بتایا کہ پائین شہر کے پانچ پولیس تھانوں نوہٹہ، خانیار، رعناواری، ایم آر گنج اور صفا کدل اور سیول لائنز کے بتہ مالو کے تحت آنے والے علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے ۔
پولیس نے مزید بتایا کہ سری نگر کے باقی ماندہ علاقوں بشمول سیول لائنز میں امن وامان کی صورتحال کو بنائے رکھنے کے لئے دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت پابندیاں نافذ کی گئی ہیں۔ سیکورٹی فورسز نے جمعرات کی شام کو نوہٹہ میں تاریخی جامع مسجد کا محاصرہ ختم کرنے اور اس میں مصلیوں کو داخل ہونے کی اجازت دینے کا مطالبہ کررہے احتجاجی لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ خیال رہے کہ کشمیری عوام کی اس سب سے بڑی عبادت گاہ میں 8 جولائی کو حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے مصلیوں کے داخلے پر روک لگی ہوئی ہے ۔
احتجاجی لوگ تاریخی جامع مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی ختم کرنے کے علاوہ حریت کانفرنس (ع) چیئرمین و متحدہ مجلس علماءجموں وکشمیر کے امیر میرواعظ مولوی عمر فاروق کی چشمہ شاہی ہٹ نما سب جیل سے رہائی کا مطالبہ کررہے تھے جہاں وہ 14 اگست سے مقید رکھے گئے ہیں۔ انتظامیہ نے نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد آزادی حامی مظاہروں کے خدشے کے پیش نظر پائین شہر میں جمعہ کی علی الصبح ہی سخت ترین کرفیو نافذ کردیا۔
جامع مسجد میں مصلیوں کے داخلے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانے کے لئے اس کے اردگرد آج سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے اضافی اہلکار تعینات کردیے گئے تھے ۔ اگرچہ مین نوہٹہ چوک کو بھی بند کردیا گیا تھا، تاہم وہاں سے شیر کشمیر انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز کی طرف جانے والے طبی عملہ اور مریضوں کو جانے کی اجازت دی جارہی تھی۔
نامہ نگار جس نے جمعہ کی صبح پائین شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا، نے نالہ مار روڑ کو کئی ایک مقامات پر خاردار تار سے بند کیا ہوا پایا اور اس پر بلٹ پروف گاڑیاں کھڑی کی ہوئی دیکھیں۔
نالہ مار روڑ کے دونوں اطراف رہائش پذیر لوگوں نے بتایا کہ چونکہ جمعتہ المبارک کو کرفیو کا نفاذ اب گذشتہ چار ماہ سے ایک معمول بن چکا ہے ، اس لئے وہ اشیائے ضروریہ خاص طور پر دودھ، سبزیاں اور ادویات ایک دن قبل ہی خریدتے ہیں۔
پائین شہر کے دوسرے علاقوں میں تعینات سیکورٹی فورسز یہ کہتے ہوئے لوگوں کو اپنے گھروں میں ہی رہنے کو کہہ رہے تھے کہ علاقوں میں کرفیو نافذ ہے ۔
ادھر سیول لائنز میں سیکورٹی فورسز نے سیکورٹی زون سونہ وار جہاں کئی ایک ممبران اسمبلی رہائش پذیر ہیں، کی طرف جانے والی سڑکوں کو ریڈیو کشمیر سری نگر سراسنگ اور سیاح استقبالی مرکز کی مقامات پر خاردار تار سے سیل کیا تھا۔ حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کے سربراہان سید علی گیلانی و میرواعظ مولوی عمر فاروق اور جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے چیئرمین محمد یاسین ملک جو 9 جولائی کے بعد سے ہفتہ وار احتجاجی کلینڈر کررہے ہیں، نے آج کشمیری عوام کو ممبران اسمبلی کی رہائش گاہوں کے باہر احتجاج کرنے کے لئے کہا تھا۔ وادی میں گذشتہ 105 دنوں کے دوران سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں کم از کم 90 شہری ہلاک جبکہ 14 ہزار دیگر زخمی ہوگئے ہیں۔
زخمیوں میں سے سینکڑوں شہری جن میں زیادہ تعداد نوجوان کی ہے ، اپنی ایک یا دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم اور جسمانی طور پر ہمیشہ کے لئے معذور ہوگئے ہیں۔
احتجاجی مظاہروں ک لہر کو توڑنے کے لئے گذشتہ ساڑھے تین ماہ کے دوران قریب دس ہزار افراد کو سنگبازی یا ہندوستان مخالف احتجاجی مظاہرے منظم کرنے کے الزام میں گرفتار کیا جاچکا ہے جن میں سے اب تک سینکڑوں افراد جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے ، پر پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے ) کا اطلاق کیا گیا ہے ۔
اگرچہ پولیس نے بتایا کہ سیول لائنز میں بتہ مالو کو چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں صرف دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت پابندیاں نافذ کی گئی ہیں، لیکن زمینی صورتحال بالکل مختلف نظر آئی کیونکہ ایسے علاقوں میں بیشتر سڑکوں کو خاردار تار سے بند کیا گیا تھا۔ سیول لائنز کے مائسمہ جہاں جے کے ایل ایف کا ہیڈکوارٹر اور اس کے چیئرمین یاسین ملک کی رہائش گاہ بھی واقع ہیں، کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو بڈشاہ چوک، حاجی مسجد، گا¶ کدل اور مدینہ چوک کے مقامات پر بند رکھا گیا تھا۔
ایسی ہی صورتحال تاریخی لال چوک میں بھی نظر آئی جہاں بیشتر سڑکوں کو خاردار تار سے بند کیا گیا تھا جبکہ کئی ایک بلٹ پروف گاڑیوں کو سڑکوں کے بیچوں بیچ کھڑا کیا گیا تھا۔
دریائے جہلم پر بنے امیرا کدل برج جو ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ کو لال چوک سے جوڑتا ہے ، کو ایک بار پھر خاردار تار سے بند کردیا گیا تھا۔ اسی طرح لال منڈی ، جواہر نگر اور دوسرے علاقوں کو لال چوک سے جوڑنے والے فٹ برج کو بھی راہگیروں کی نقل وحرکت کے لئے بند رکھا گیا تھا۔
تاہم سرکاری افسران و حکومتی اہلکاروں کی جانب سے سیول سکریٹریٹ سری نگر تک پہنچنے کے لئے استعمال کئے جارہے مولانا آزاد روڑ کو کھلا رکھا گیا تھا۔ دریں اثنا وادی بھر میں دکانیں اور تجارتی مراکز بدستور بند ہیں جبکہ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی آواجاہی مکمل طور پر معطل ہے ۔ اسٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن (ایس آر ٹی سی) کی گاڑیاں بھی 9 جولائی سے سڑکوں سے غائب ہیں۔وادی کے سرکاری دفاتر، بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں میں معمول کا کام کاج بدستور متاثر پڑا ہوا ہے ۔ بیشتر بینک شاخیں صبح کے وقت صرف تین گھنٹوں تک کھلی رہتی ہیں۔