سری نگر: گرمائی دارالحکومت سری نگر کے ڈلگیٹ علاقہ میں گذشتہ رات دیر گئے اُس وقت رات بھر جاری رہنے والے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا جب جموں وکشمیر پولیس نے ایک مقامی مسجد کے امام و خطیب کو حراست میں لیا۔ مقامی رہائشیوں نے بتایا کہ ڈلگیٹ سے چند سو میٹر کی دوری پر سونہ وار میں واقع اقوام متحدہ فوجی مبصریں کے دفتر کے نذدیک قائم مسجد سلیمان ٹینگ میں گذشتہ شام نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد ایک اجتماع ہورہا تھا جس میں مسجد عمر (رض) اندرون درگجن ڈلگیٹ کے امام و خطیب مولوی اعجاز بھی شرکت کے لئے مدعو کئے گئے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ ریاستی پولیس کے اہلکاروں نے اچانک مسجد کو محاصرے میں لیکر مولوی اعجاز کو حراست میں لے لیا۔ انہیں پولیس تھانہ رام منشی باغ میں مقید رکھا گیا ہے ۔ مولوی اعجاز کو حراست میں لئے جانے کی خبر ڈلگیٹ علاقہ بالخصوص اندرون درگجن میں پھیلنے کے ساتھ سینکڑوں کی تعداد میں مردو زن سڑکوں پر نکل آئے اور مولوی اعجاز کو فوری طور پر رہا کرنے کا مطالبہ کرنے لگے ۔ احتجاجی لوگ مولوی اعجاز کے علاوہ کشمیر کی آزادی کے حق میں نعرے بازی کررہے تھے ۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق علاقہ میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ رات بھر جاری رہا۔ مقامی رہائشیوں نے الزام عائد کیا کہ سیکورٹی فورسز جان بوجھ کر علاقہ کے امن کو خراب کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔یو این آئی کے ایک نامہ نگار جس نے جمعہ کی صبح علاقہ کا دورہ کیا، نے بتایا کہ علاقہ میں کرفیو جیسی پابندیاں نافذ کی گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ علاقہ میں مزید احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لئے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے اہلکار تعینات کئے گئے ہیں۔ درگجن کے ایک رہائشی نے یو این آئی کو فون پر بتایا کہ علاقہ کے اندرونی علاقہ کو سخت ترین حصار میں لیا گیا ہے اور یہاں تعینات کئے گئے سیکورٹی فورس اور ریاستی پولیس کے اہلکار کسی بھی شہری کو اپنے گھر سے باہر آنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ علاقہ میں تعینات سیکورٹی فورسز نے جمعہ کی علی الصبح اُس وقت کئی رہائشیوں کو زدوکوب کیا جب وہ دودھ اور روٹی حاصل کرنے کے لئے اپنے گھروں سے باہر آئے تھے ۔ قابل ذکر ہے کہ ریاستی پولیس نے 11 اگست کو مساجد کے ائمہ و خطباء سے کہا تھا کہ وہ اشتعال انگیز خطابات سے اجتناب کرے ۔
وادی میں 8 جولائی کو حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے ساتھ شروع ہوئی آزادی حامی احتجاجی لہر کے دوران تاحال متعدد ائمہ مساجد و خطباء کو مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقاریر کرنے کے جرم میں گرفتار کیا جاچکا ہے جن میں سے کچھ ایک پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق بھی کیا جاچکا ہے ۔ دریں اثنا اگرچہ جموں وکشمیر پولیس نے وادی میں پتھراؤ کے واقعات میں ملوث افراد خاص طور پر نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ تیز کیا ہے اور ہر روز 50 سے زائد افراد کو حراست میں لیا جاتا ہے جن میں سے اب تک قریب تین سو افراد پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کیا جاچکا ہے ، تاہم اس کے باوجود وادی کے اطراف واکناف میں پرتشدد احتجاجی مظاہروں، آزادی حامی ریلیوں اور جلسوں کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے ۔ وادی میں جاری ‘آزادی حامی ‘ احتجاجی لہر میں تاحال 86 عام شہری ہلاک جبکہ قریب دس ہزار دیگر زخمی ہوگئے ہیں۔