ابھا، عسیر: سعودی عرب میں خواتین کی بڑی تعداد نے اس خبر کا خیرمقدم کیا ہے کہ سعودی محکمہ پاسپورٹ قواعدو ضوابط کے ایک مسودہ تیار کررہا ہے، جس سے خواتین کو اپنے محرم کی رضامندی کے بغیر سفر کی اجازت حاصل ہوجائے گی۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے جنوب مغربی صوبے عسیر کی ایک خاتون کاروباری شخصیت نورا الرفیع کہتی ہیں کہ اس منصوبے سے خواتین کو اپنا کاروبار بیرون ملک پھیلانے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس اجازت سے اقتصادی ترقی میں خواتین کی شرکت مزید مؤثر ہوجائے گی۔سعودی صحافی خدیجہ القحطانی کا کہنا ہے کہ ضرورت ہے کہ اس طرح کے مزید فیصلے کیے جائیں، جن سے خواتین کو مدد مل سکے۔
انہوں نے کہا کہ عرب دنیا کو سعودی خواتین کی شراکت کی ضرورت ہے۔
روزنامہ الریاض کی صحافی مریم الجبیر کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا نیٹ ورک نے بیرونی دنیا کے ساتھ خواتین کا بے مثال رابطہ قائم کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر اس طرح کے دیگر فیصلے لیے گئے تو وہ مزید کامیابی حاصل کریں گی۔
کنگ خالد یونیورسٹی کے ڈاکٹر خالد جلبان نے بتایا کہ بہت سی اعلیٰ تعلیم یافتہ سعودی خواتین نے دنیا کی معروف یونیورسٹیوں سے ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ انہوں نے سائنسی، طبّی، ثقافتی اور اقتصادی معاملات پر بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کرکے بھی خود کو ثابت کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’اس فیصلے سے ان کے اعتماد میں اضافہ ہوگا اور اس سے وہ بین الاقوامی سطح پر کامیابیاں حاصل کرنےکے قابل ہوسکیں گی۔‘‘
ڈاکٹر خالد جلبان نے کہا کہ اس فیصلے سے دقیانوسی تصورات کی زنجیروں کو توڑنے میں بھی مدد ملے گی، جس کے حامل افراد سعودی خواتین کا استحصال کررہے ہیں، جو ان کے کام کرنے یا معاشرتی سرگرمیوں میں ان کی شراکت کو پسند نہیں کرتے۔
ریاض میں محکمہ پاسپورٹ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل سلیمان الیحیٰ نے بتایا کہ یہ قواعد و ضوابط سفری وجوہات کی بنیاد پر ہوں گے، عمر کی بنیاد پر نہیں۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ پاسپورٹ عدالت کے فیصلوں پر عملدرامد کررہا ہے، جس نے خواتین کو ان کے والدین یا سرپرستوں کی منظوری کے بغیر بیرون ملک سفر، یا پاسپورٹ کے اجراء اور تجدید کی اجازت دی ہے۔