سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے ایک معروف عالم دین محمد العریفی نے اپنے دیرینہ موقف کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے کبھی شام میں جہاد کی حمایت نہیں کی ہے۔ یہ نیا موقف سامنے لا کر محمد العریفی نے اپنے اس مشہور زمانہ بیان کی تردید کر دی ہے۔
اس نئے بیان کی وجہ سے محمد العریفی کو سوشل میڈیا پر اپنے مداحین کی تنقید اور تضحیک کا نشانہ بننا پڑا ہے۔ انہوں نے ”روتا نا خلیجیہ” کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں ”الجزیرہ” کو دیے گئے اپنے اس بیان کے برعکس موقف اختیار کیا ہے جس میں شام میں جہاد اور القاعدہ کی حمایت کے لیے کہا گیا تھا۔
واضح رہے شیخ العریفی نے فروری 2013 کے دوران دیے گئے بیان پر دھماکہ خیز انداز میں کہا تھا ” القاعد
ہ خون بہانا برداشت نہیں کرتی ” ان کا کہنا تھا” کچھ لوگ القاعدہ کے بارے میں مختلف آراء پیش کرتے ہیں جو القاعدہ کے بارے میں درست نہیں ہیں۔”
ان کے بقول القاعدہ کے ارکان دوسرے مسلمانوں کے بارے میں کفر کے فتوے لگانا بھی برداشت نہیں کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا ” میں القاعدہ کا حصہ نہیں ہوں، لیکن اللہ کا حکم ہے کہ جب تم گواہی دو تو عدل کی بنیاد پر دو۔”
شیخ العریفی نے 2013 میں قاہرہ کی مسجد میں اپنے خطاب کے دوران کہا تھا ” خلافت آنے والی ہے۔” لیکن اپنے حالیہ انٹرویو میں شیخ العریفی نے اس امر کا بھی انکار کیا ہے کہ انہوں نے خلافت کے حوالے سے ایک سال پہلے کوئی پیش گوئی کی تھی۔
سعودی عالم دین نے اپنے تازہ انٹرویو میں اخوان سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعظم ہاشم قندیل سے ان کے دفتر میں ملاقات کے واقعے کی صحت سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ” میرے ایک خطاب کے دوران یہ محض اتفاق تھا کہ اچانک ان سے ملاقات ہو گئی۔”
خیال رہے مصری ٹی وی نے ایک سال پہلے رپورٹ کیا تھا شیخ العریفی سرکاری دورے پر مصر آئے ہیں تاکہ اخوان قیادت سے ملاقات کر سکیں۔ لیکن اب شیخ العریفی کی تردیدوں نے ان کے مداحین کو صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔
ٹوئٹر استعمال کرنے والے ایک حامی نے کہا ہے ” کیا وجہ ہے کہ العریفی بہادری سے اپنے اصولوں پر قائم نہیں رہ سکے ہیں۔ ٹوئٹر پر شیخ کو القاعدہ کی تعریف پر مبنی بیانات بھی یاد کرائے گئے ہیں۔
شیخ العریفی کے القاعدہ کے حق میں ہونے اور جہاد کے لیے نوجوانوں کی ذہن سازی کرنے کی بنیاد پر برطانیہ میں داخل ہونے کے حوالے سے پچھلے ماہ کے اواخر میں پابندی عاید کر دی گئی ہے۔ شیخ العریفی اس سے پہلے بھی اپنے متنازعہ بیانات اور فتووں کی وجہ سے متنازعہ شہرت کے حامل ہیں۔