سعودی عرب میں شادی کے پہلے سال ہی ساٹھ فی صد طلاقیں ہوجاتی ہیں اور خاوند یا بیوی طلاق کے لیے عدالت سے رجوع کرتے ہیں۔
سعودی عرب میں طلاق سے متعلق یہ اعدادوشمار ایک جج صاحب کے فراہم کردہ ہیں لیکن سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک میں طلاق کی شرح 35 فی صد تک ہوچکی ہے اور یہ دنیا میں طلاق کی اوسط شرح سے کہیں زیادہ ہے۔ دنیا میں اس وقت طلاق کی اوسط شرح 18 سے 22 فی صد کے درمیان ہے۔
ساحلی شہر جدہ میں خاوندوں کی جانب سے بیویوں کو طلاق دینے کا سب سے زیادہ رجحان پایا جاتا ہے اور وہاں یہ شرح 60 فی صد ہے۔اس کے بعد دارالحکومت الریاض کا نمبر ہے وہاں طلاق دینے کی شرح 39 فی صد ہے۔الاحساء میں طلاق کی شرح 20 فی
صد اور مشرقی صوبے میں 18 فی صد ہے۔یہ اعداد وشمار الاحساء میں قائم البیر خیراتی سوسائٹی سے وابستہ خاندان ترقی مرکز (ایف ڈی سی) کے فراہم کردہ ہیں۔
قطیف میں وزارت انصاف سے وابستہ محکمہ وقف اور وراثت کے جج شیخ محمد علی آل جیرانی نے شریعت سے عدم آگہی سمیت طلاق کی بہت سی وجوہ بیان کی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ 25 فی صد طلاقیں شریعت کا کماحقہ علم نہ ہونے کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتی ہیں۔
طلاق کی دیگر وجوہ میں جینیاتی اور جنسی بیماریاں 5 فی صد ،خاوند کا بیشتر وقت سفر میں رہنا اور گھروں سے دوری 5 فی صد ،نان ونفقہ اور بیوی کی ضروریات کو پورا نہ کرنا اور پُرتعیش زندگی 20 فی صد ،ٹیکنالوجی کی ترقی اور سوشل نیٹ ورکنگ ایشوز 20 فی صد نمایاں ہیں۔اس کے علاوہ خاوند،بیوی کا آپس میں عدم اعتماد 15 فی صد اور خاوند کی ایک سے زیادہ شادیاں اور بیویوں سے برابری کا سلوک کرنے میں ناکامی کی وجہ سے 10 فی صد طلاقیں ہوتی ہیں۔
وزارت انصاف نے دسمبر میں اعلان کیا تھا کہ وہ سعودی عرب میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کا جائزہ لینے کے لیے ایک تحقیقی مطالعہ کرے گی۔وزارت کے ایک عہدے دار کا کہنا ہے کہ وہ طلاق کی شرح سے متعلق بالکل درست معلومات اکٹھی کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ ان کے معاشرے اور عدلیہ پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ وزارت انصاف شادی شدہ جوڑوں کے لیے ایک رہ نما کتابچہ شائع کرنی چاہتی ہے جس میں انھیں خبردار کیا جائے گا کہ ان کو کیا کیا ممکنہ مسائل درپیش ہوسکتے ہیں۔