جدّہ: سعودی عرب میں نومولود بچوں کے ناموں میں حالیہ برسوں کے دوران نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے، اور اس کی وجہ معاشرے میں علم کے پھیلاؤ اور ثقافتی کشادگی کو قرار دیا جارہا ہے۔
سعودی عرب میں حکام کی کوششوں سے غیرمعمولی یا انوکھے ناموں میں کمی واقع ہوئی ہے، جنہوں نے اجنبی اور عجیب و غریب نام رکھنے سے روکنے کے لیے قوانین نافذ کیے ہیں۔
یہاں سب سے زیادہ رکھے جانے والے ناموں میں محمد، فہد، عبداللہ، عبدالرحمان، ترکی، بندر، عمر، ع
لی، فاطمہ، عائشہ، نورا، حیسا، شیخہ اور ماہا شامل ہیں۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق ایسے والدین کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے، جو اپنے بچوں کو عجیب قسم کے ناموں سے پکارتے ہیں، ان میں لڑکوں کے لیےرشاش (ایک بندوق کی مشین)، زقم (چیخنا چلانا)، اور نجّار شامل ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کے لیے فضیحہ (جو خوفزدہ ہو) اور مریبہ (ہولناک) کے نام شامل ہیں۔
ان دنوں والدین اچھے ناموں کے لیے اپنی ترجیحات کے انتخاب میں مدد لینے کے سلسلے میں ڈکشنریوں سے مدد لیتے ہیں، جو کتابوں کی بہت سی دکانوں اور لائبریریوں میں دستیاب ہیں۔
اس حوالے سے رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ مرد جنہیں بیٹے کی پیدائش کی امید ہوتی ہے، اور جب ان کی بیویاں لڑکیوں کو جنم دیتی ہیں تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں۔
ایسے معاملات میں وہ عموماً اپنی بیٹیوں کے لیے مکروہ ناموں کا انتخاب کرتے ہیں۔تاہم ایسے مؤقف کو معاشرے کے اندر آگاہی میں اضافے کی وجہ سے مسترد کیا جارہا ہے۔
سوشل اسٹیٹس ڈیپارٹمنٹ جیسے ادارے عجیب و غریب ناموں کو تبدیل کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔
اس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق ایسے لوگ جو اپنے ناموں کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں، ان میں نوجوان مردو خواتین کی اکثریت ہے۔
عجیب و غریب ناموں کی بنا پر شرمندگی سے بچنے کے لیے لوگوں کی مدد کی خاطر ناموں کی ایک فہرست شایع کی گئی ہے، جس میں دیے گئے ناموں کو کسی بھی صورتحال میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
کنگ سعود یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ایمان السعید یقین رکھتی ہیں کہ انسانوں کا ان کے ناموں سے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’کسی شخص کا نام اس کے نفسیاتی صورتحال کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ کچھ نام سن کر ہنسی چھوٹ سکتی ہے، اور طنزو مزاح پر اکسا سکتے ہیں، یا کراہت آمیز یا بدوضع ہوسکتے ہیں۔ ایسے نام لوگوں کے لیے نقصاندہ اور اس کے لیے خوداعتمادی میں کمی کا سبب بن سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ایمان کہتی ہیں کہ ’’اس طرح کے معاملات میں فرد اُداس ہوجاتا ہے اور تنہا رہنا پسند کرتا ہے۔ اس طرح کے احساسات کسی فرد کو اپنے خاندان کے افراد اور دوستوں سے دور کردیتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’ایک مسلمان کا یہ قانونی حق ہے کہ اس کا اچھا اور قابلِ احترام نام دیا جائے۔‘‘
سول اسٹیٹس ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان محمد الجسیر کہتے ہیں کہ نومولود بچوں کے نام رکھنے کے سلسلے میں قوانین اور کنٹرول موجود ہے۔
انہوں نے کہا ’’ہم شہریوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنے نومولود بچوں کا نام شریعت کے مطابق رکھیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ڈیپارٹمنٹ نے اس سلسلے میں ہمیشہ ہدایات جاری کی ہیں۔
صورتحال اس وقت بدترین ہوجاتی ہے، جب عود کے کچھ تاجر اپنے گاہکوں کو دھوکہ دینے کے لیے اس میں سیسے کی ملاوٹ کردیتے ہیں تاکہ اس کے وزن میں اضافہ ہوجائے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح یہ صحت کے لیے انتہائی حد تک خطرناک ہوجاتا ہے۔
ماہرین نے عرب نیوز کو بتایا کہ سیسہ ایک زہریلا مادّہ ہے، جو انسانی جسم میں نقصانات اور اعصاب کی سوزش یا فالج، پیٹ میں درد اور خون میں زہریلے پن کا باعث بن سکتا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ عود کی دھونی دینے کا دورانیہ اہمیت کا حامل ہے، چاہے اس میں سیسے کی مقدار مختصر ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ یہ جسم میں اکھٹا ہوکر دائمی زہریلے پن کا سبب بن سکتا ہے۔
عسیر سینٹرل ہسپتال میں متعددی امراض کے ماہر ڈاکٹر طارق الزراقی نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ اقسام کی خوشبوؤں میں کیمیائی مرکبات شامل ہوتا ہے، اور جو پھیپھڑوں کی سوزش پیدا کرسکتے ہیں، خاص طور پر اگر یہ مواد ملاوٹ شدہ ہوں۔
کچھ آلودگی جیسے گرد، کیمیائی مرکبات اور گندگی سانس کے راستے ہوا کے ساتھ جسم میں داخل ہوسکتی ہے، اور سانس کے نظام کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
طارق الزراقی نے واضح کیا کہ عود جلانا سعودی عرب میں ایک معاشرتی عادت سمجھا جاتا ہے، تاہم عود جلانے کے عمل کے نتیجے میں خوشبو سے کہیں زیادہ ’’کاربن ڈائی آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ اور بہت سے دوسرے مرکبات اسی طرح خارج ہوتے ہیں، جس طرح آگ جلانے اور سگریٹ سلگانے سے خارج ہوتے ہیں۔‘‘
بچوں میں سانس کی بیماریوں کی ماہر ڈاکٹر وفا المریدف اس حوالے سے قدرے مختلف رائے رکھتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ عود کی بہت سی اقسام ہیں، اور ان کی جانچ نہیں کی جاسکی ہے، جبکہ ان کے مطابق اب تک ایسی کوئی تحقیق نہیں ہے، جس سے ثابت نہیں ہوسکا کہ عود جلانے سے پھیپھڑوں میں ریشے دار بافتوں کے اکھٹا ہونے کا کوئی تعلق ہے۔