گذشتہ دنوں ہونے والے واقعات کے پیش نظر سعودی عرب میں سکیورٹی فورسز کو الرٹ کردیا گیا ہے
سعودی عرب میں حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے کم از کم 135 افراد کو دہشت گردی کے ال
زام میں حراست میں لیا ہے۔
گرفتار کیے جانے والے افراد میں سے 26 کا تعلق دوسرے ممالک سے ہے، اور ان میں اکثریت شام اور یمن کے شہریوں کی ہے۔
سعودی عرب کے وزیر داخلہ جنرل منصور الترکی کے مطابق مشتبہ افراد مختلف گروہوں میں ملک میں داخل ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ عراق و شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف امریکہ کی قیادت میں جنگ میں شامل ہونے کے بعد یہ اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ دولتِ اسلامیہ کی جانب سے اس کے خلاف رد عمل سامنے آئے گا۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق جنرل منصور ترکی نے کہا کہ ان لوگوں کو اس لیے گرفتار کیا گیا ہے کہ ’انھوں نے بار بار سعودی عرب کی سکیورٹی اور استحکام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’گرفتار کیے جانے والوں میں 40 افراد جنگ زدہ علاقوں سے واپس آئے تھے۔ انھوں نے شدت پسند تنظیموں میں شمولیت اختیار کر رکھی تھی اور دھماکہ خیز مواد بنانے کی تربیت حاصل کر چکے تھے۔‘
مبصرین کے مطابق اسلام کا مرکز ہونے کے سبب سعودی عرب دولت اسلامیہ کا پہلا نشانہ ہے تاکہ خلافت کا قیام عمل میں لایا جا سکے
ان کے علاوہ بہت سے افراد کو شدت پسند تنظیموں کی امداد، تنظیم کے لیے بھرتی کرنے کے سلسلے میں مالی تعاون دینے، پروپیگنڈا کرنے اور دھماکہ خیز مادہ بنانے کے لیے گرفتار کیا گيا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ گرفتاریاں ایسے وقت ہوئی ہیں جب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن اور بحرین شدت پسند جماعت دولت اسلامیہ کے خلاف امریکہ کی قیادت میں جاری حملوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
جنرل منصور الترکی نے کہا کہ ’گرفتار کیے جانے والوں میں 16 شام کے باشندے ہیں جبکہ تین یمنی ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں ایک مصری، ایک لبنانی، ایک افغانی، ایک ایتھوپیائی، ایک بحرینی اور ایک عراقی باشندہ شامل ہے۔‘
اس سے قبل گذشتہ ماہ امریکہ میں قائم انٹیلی جنس گروپ سائٹ کے مطابق دولت اسلامیہ سے منسلک میڈیا گروپ نے ایک ویڈیو جاری کیا تھا جس میں دعویٰ کیا گيا تھا کہ ڈنمارک کے ایک شہری کو ان کے حامیوں نے گولی ماری ہے۔
دوسری جانب ڈنمارک نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ 22 نومبر کو ان کے ایک شہری کو سعودی عرب کے دارالحکومت میں گولی مار کر زخمی کیا گیا ہے۔
اس ویڈیو میں مبینہ طور پر دولت اسلامیہ کے رہنما ابوبکر البغدادی کی آواز میں یہ کہا گيا ہے کہ ’سعودی حکمرانوں کو اب کوئی سکیورٹی یا چین نہیں ملنے والا ہے۔‘
اس سے قبل ستمبر میں نواف عبید اور سعود السرہان نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں لکھا تھا کہ ’اسلام کا مرکز ہونے کے سبب سعودی عرب دولت اسلامیہ کا پہلا نشانہ ہے تاکہ خلافت کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔‘