جدّہ: سعودی عرب کی ایک دولتمند کاروباری شخصیت نے ایک ایسی مہم کا آغاز کیا ہے، جس کے تحت مردوں کی سابقہ مجرم خواتین سے شادی کی حوصلہ افزائی کی جائے گی، خاص طور پر ایسی خواتین جنہوں نے اپنی اسیری کے نتیجے میں جرائم سے تائب ہوگئی ہوں اور ان پر شرمندہ ہوں۔
فہد سعد الجوہانی تین خواتین سے شادی کرچکے ہیں اور اور ان سب سے ان کے بچے بھی ہیں، لیکن وہ چوتھی مرتبہ شادی کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’میری چوتھی بیوی ایک مجرمہ ہوگی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ سابقہ مجرم خواتین کی شادی کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ جب وہ جیل سے رہائی پائیں تو معمول کی زندگی گزار سکیں۔
فہد سعد الجوہانی نے سوال کیا کہ ’’ہم مردوں کے گناہوں اور جرائم کو ہمیشہ کیوں بھلادیتے ہیں لیکن خواتین کے ساتھ ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے؟‘‘
انہوں نے کہا کہ وہ انہیں ہمیشہ حیرت ہوتی تھی کہ جب کوئی سابقہ مجرمہ کو ان کی رہائی پر اس کے خاندان کی جانب سے قبول کرنے سے انکار کردیا جاتا ہے۔
انہیں یہ جان کر تعجب ہوا کہ بہت سے سابقہ مجرم اس لیے جرائم کی زندگی کی طرف لوٹ گئے، کہ ان کے خاندان اور معاشرے نے انہیں مسترد کردیا تھا۔
انہوں نے سوال کیا کہ ’’اللہ گناہگاروں کی معافیوں اور توبہ کو قبول کرلیتا ہے۔ لیکن ہم بطور انسان ایسا کیوں نہیں کرتے، ہم کیوں سابقہ مجرموں پر اپنے دروازے بند کردیتے ہیں؟ ہم انہیں نئی زندگی کی امید کیوں نہیں دیتے؟ہم انہیں اپنا گھر بسانے اور خوشگوار شادی شدہ زندگی گزارنے سے کیوں روکتے ہیں؟‘‘
الجوہانی نے کہا کہ انہوں نے مذہبی پیشواؤں اور مبلغین کی بڑی تعداد سے بات کی ہے، انہوں نے ان کے خیال کو پسند کیا اور سابقہ خواتین مجرموں کے معاملات کی دیکھ بھال کے ذریعے ایک فلاحی معاشرہ کی تشکیل کے لیے ان کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کی۔
انہوں نے بتایا کہ ’’میں نے وزارتِ سماجی امور کے حکام سے کہا ہے کہ وہ ایک ایسی خاتون مجرم جو جیل سے رہائی کے قریب ہو، کی سفارش کریں تاکہ میں اس سے شادی کرسکوں۔‘‘
زیاد سعد المعاوی شادی سے متعلق اہلکار ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ایک سابقہ مجرم سے شادی ان کی اپنی اس غلطی سے تائب ہونے کی تصدیق کرے گی، جو ان کے
جیل میں آنے سے قبل سرزد ہوئی تھی۔
نسرین ابو طٰحہ جو سماجی تحفظ کے شعبے میں نگران ہیں، ایک سابقہ مجرمہ ہیں، ان کے خاندان نے انہیں قب
ول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس شعبے کو ایسے مردوں کی جانب سے بڑی تعداد میں درخواستیں موصول ہوئی ہیں، جو سابقہ مجرم خواتین سے شادی کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’تین سال قبل جب یہ شعبہ قائم ہوا تھا، تین سابقہ مجرم خواتین کی شادی ہوئی ہے، اور اب وہ خوشگوار زندگی گزار رہی ہیں۔‘‘
نسرین نے بتایا کہ یہ بہت عام سی بات ہے کہ خاندان ایسی خواتین کو قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں، جنہیں قید کی سزا ہوگئی ہو۔ زیادہ تر خاندان ان کی شادیوں کو بھی قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’اس طرح کے معاملات میں ہم وزارتِ داخلہ کی رضامندی حاصل کرتے ہیں اور ان کی شادی کے لیے عدالت سے رجوع کرتے ہیں۔