سعودی عرب کے شرعی نظام میں منشیات کی سمگلنگ کا جرم ثابت ہونے پر موت کی سزا دی جاتی ہے
سعودی عرب نے ایک اور پاکستانی شہری کا ہیروئن کی سمگلنگ کے جرم میں سرقلم کر دیا
ہے جبکہ رواں سال تین پاکستانیوں سمیت 11 افراد کے سر قلم کیے جا چکے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سعودی حکام کے حوالے سے بتایا کہ پیر کو مقدس شہر مکہ میں پاکستانی شہری یاسر عرفات کا سر قلم کیا گیا۔
سعودی وزارتِ داخلہ کے مطابق تفتیش کے دوران یاسر عرفات نے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا اور عدالتی کارروائی میں اسے سزائے موت سنائی گئی تھی۔
سعودی وزارتِ داخلہ کے مطابق حکومت منشیات کی روک تھام کے لیے کوششیں کر رہی ہے کیونکہ یہ معاشرے کے لیے اور انفرادی طور پر شدید نقصان دہ ہے۔
سعودی عرب میں رواں سال تین پاکستانیوں سمیت 11 افراد کے سر قلم کیے جا چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے منشیات اور اور جرائم سے متعلق ادارے کے مطابق حالیہ برسوں میں خلیجی ممالک غیر قانونی منشیات کی ایک بڑی منڈی بن چکے ہیں۔
ایک دن پہلے اتوار کو سعودی وزارتِ داخلہ نے کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے سکیورٹی حکام کی مدد سے ہیروئن سمگل کرنے کی ایک کوشش ناکام بنا دی گئی ہے۔
وزارتِ داخلہ کے مطابق دو ٹرک ڈرائیوروں کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان کا تعلق پاکستان سے ہے۔
گذشتہ سال سمتبر میں اقوام متحدہ کے ایک ماہر نے سعودی عرب میں پھانسی کی سزا پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔
ماورائے عدالت ہلاکتوں کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر کرسٹوف ہینز نے سعودی عرب میں مقدموں کی سماعت کو انتہائی غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بعض اوقات تو ملزموں کو اپنے دفاع کے لیے وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔
انھوں نے کہا تھا کہ ملزمان سے تشدد کے ذریعے اعتراف جرم کرایا جاتا ہے۔
سعودی عرب کے شرعی نظام میں ریپ، قتل، مسلح ڈکیتی اور منشیات کی سمگلنگ کا جرم ثابت ہونے پر موت کی سزا دی جاتی ہے اور اس کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر بڑے پیمانے پر مجرموں کو سزائے موت دی جاتی ہیں۔