مصر ہو یا دیگر ،تقریباً۶۰-۵۰ سال سے جو دور عالم عربی کی حکومتوں کا چلتا رہا عراق سے لے کر مراکش تک، اس دور میںسامراج کا اقتدار تھا، براہ راست سامراج رہا، انگریز ، یافرانسیسی یا اطالوی وغیرہ قابض رہے ان سے آزادی ہوئی تو ان کے ایجنٹ قابض ہوگئے،ظاہر ہے کہ پورے عالم عرب پر سامراجی ایجنسیوں نے حکومت کی،بے انتہا مظالم کئے، اور تمام اسلامی تحریکات ان کے ظلم وستم کی شکار ہو ئیں، اور سب کیلئے آزادی تھی سوائے اسلام کے۔یہ صورتحال تمام ملکوں میں رہی ، الاخوان المسلمون تعلیمی تربیتی،سماجی،سیاسی میدان میںنمایاں تنظیم ہے۔ الاخوان المسلمون کو حسن البناؒنے بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں قائم کی، یہ۱۹۲۸ ء کی بات ہے، یعنی۱۹۲۸ ء میں یہ تنظیم شروع ہوئی۔اس تنظیم کا وہی طرز تھا جو آج ہماری تبلیغی جماعتوں کا ہے،مسجدوں میں بازاروں میں ہر جگہ دین کی بات کہنا، لوگوں کو دین کی طرف مت
وجہ کرنا،نماز کی دعوت دینا،اور سماج کی اصلاح کرنا ، رفاہی کام کرنایہی ان کا مشن رہااور ساتھ ہی ساتھ چونکہ وہ دور انگریزوں کا تھاتو انگریزوں کی مخالفت بھی کی انہوں نے،اسی طرح جدوجہد کی جس طرح ہمارے یہاں ہندوستان میںعلمانے رول ادا کیا انگریزوں کے مقابلے میں،بیانات دیئے اورہر طرح کی مشقت و اذیت اٹھائی یہی صورتحال اس وقت مصرمیں اخوان المسلمون کی تھی۔اسی زمانے میںیہ تنظیم شام منتقل ہو گئی، پھرعراق منتقل ہوگئی،جزیرۃا لعرب میں اس کے بہت سے لوگ تھے جو اس کے ساتھ تھے،اس کے ہمنوا تھے اور پھر اسی طرح سے افریقہ کی شمالی پٹی کے جو ملک تھے مثلاًلیبیا، الجزائر، مراکش میں اس کے اثرات منتقل ہوگئے۔تو یہ جانا جاتا تھا کہ یہ اسلامی تحریک ہے،تو ظاہر ہے کہ اسلام میں اصلاح کی بات ہی کی جائے گی ۔تو سیاست اس سے الگ نہیں ہو سکتی۔اور ایسے میںوقت کا جو حاکم ہے اس سے ٹکراؤ نہ چاہتے ہوئے بھی ٹکراؤ پیداا ہو جاتا ہے۔ظاہر ہے کہ وہ ظلم کرتا ہے اور اسلام اس کو ہونے نہیں دیتا ہے رکاوٹیں ڈالتا ہے اس کی وجہ سے ٹکراؤکی نوبت آتی ہے۔اور شاہ فاروق کے زمانے میں جماعت کے بانی حسن البناکو شہیدکر دیا گیا۔
اخوان المسلمون کی تنظیم کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کے اراکین دار ورسن سے گزرتے رہے جیل اور قید خانوں میں صعوبتیں جھیلتے رہے۔ مورخین کی بے شمار کتابیں اس پر گواہ ہیں اور اس طرح نئی نسل جو ہے ہماری نسل اور ہمارے بعد ہمارے شاگردوں کی نسل کو اسی اعتبار سے جانتی ہے کہ الاخوان المسلمون عالم عرب کی سب سے زیادہ اچھی ،بہتر ، موثر اور سب سے طاقتور تنظیم تھی اور ہے۔ اب آپ نے دیکھا کہ اچانک۲۰۱۱ ء میں ایک دم سے ایک انقلابی لہر اٹھی۔ تو ظاہر ہے کہ ایک ٹھیلے والے کے ساتھ ایک پولیس والے نے ظلم کیا، اس نے خود کشی کر لی آگ لگا لی۔ تیونس میںیہ ایک واقعہ تحریک کاسبب بنا گیا کہ ایک چنگاری سے آگ لگ گئی۔اور تیونس میں جنگ کی آگ لگ گئی۔ اور اورعوام اٹھ کھڑے ہوئے حکومت کے خلاف مظالم سہتے سہتے تنگ آگئے تھے اور پورے عالم عرب میں سب سے بدترین جابر ڈکٹیٹر حکومت تھی تیونیشیا میں جہاں کا حاکم بے انتہا بدکردار تھا مجرم تھا اس نے مسجدوں میں پابندی لگا رکھی تھی مدرسوں کا تو وجود ہی ختم کر دیا تھااور اسلامی تشخص کو مٹانے کیلئے اس نے ہر طرح کی کوشش کی۔ نمبردو پر مصر کا نمبر تھا حسنی مبارک ، حسنی مبارک سے پہلے انوارالسادات، ان سے پہلے جمال عبدالناصریہ سب کے سب سامراجی دور کی یادگارتھے جن کا کام اسرائیل سے تعلقات قائم رکھنا تھا اور اسرائیل کی خاطر فلسطینیوں کو کچلنا اور حماس کے راستے بند کرنا اور مجاہد ین کو تنگ کرنا، انہیں جیلوں میں اذیتیں دیناان کا رویہ ہی تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ عوام تو تنگ تھے ہی خاص طور پر اسلامی تحریکات کے لوگ ان سے بے انتہا تنگ تھے اور بہت بڑی تعداد جیلوں میں دہائیوں تک پڑی رہی۔ تو انقلاب تیونس میں تو فوراً آگیا کہ اور وہاں کا حاکم جان لے کر بھاگا ۔اسکو جس نے پناہ دی وہ سعودی عرب کی ظالمانہ حکومت تھی۔ جس نے اس مجرم کو اس ڈکٹیٹر کو ، اس بدمعاش کو پناہ دی۔ اس کی ضیافت کی، ظاہر ہے کہ پناہ ہی صرف نہیں دی بلکہ اس کے ساتھ مل کر انقلاب کے خلاف سازش کرنے کیلئے منصوبہ بندی تھی۔ پھر اس سے سبق لے کرمصر میں انقلاب کی لہر اٹھ گئی۔ ۱۸ دن لگے جس میں کتنے شہید ہوئے ،کتنوںکو پولیس نے مارا کتنوں کو فوج نے مارا آخر میں انقلاب کامیاب ہوا لیکن کامیابی دھوکے سے ہوئی۔یعنی فوج جو حسنی مبارک کے ساتھ تھی ، پولیس جو حسنی مبارک کے ساتھ تھی میڈیا جو حسنی مبارک کے ساتھ تھا عدالتیں جو حسنی مبارک کے ساتھ تھیں۴۰ پچاس میں بٹھایا گیا تھا ان ایجنٹوںکو اور یہ سارے جو حلقے ہیں ان پر قبضہ کیا گیا تھا وہ اندر سے ساتھ تھے اس مجرم کے لیکن فوج نے چالاکی کی کہ عوام کا ساتھ دکھایااورحسنی مبارک کوبظاہر جیل لیکن فائیو اسٹار ہوٹل منتقل کر دیا۔ تو انہیں تو کوئی تکلیف نہیں دی گئی منتقل کر دیا، اس طرح وہ جیل میں ہیں اب ان کا مقدمہ چل رہا ہے، ادھر عوام کے تقاضے سے مجبور ہو کر موقع دیا گیامرسی کو۔ انہوں نے موقع دیا اس کا کہ الیکشن ہو ، دھیرے دھیرے فضا بنی اور الیکشن ہوا۔ جتنی بھی اسلامی تحریکات تھیں ان سب نے مل کر مرسی کو منتخب کر لیا دوسری طرف احمد شفیق تھا وہی سیکولر لادینی ذہن کا ، اسرائیل کا ایجنٹ اور ایک بدکردار انسان۔اس کو پروجیکٹ کیا گیا۔ اور جتنا بھی عملہ تھا حسنی مبارک کا جو چلاآرہا تھا اور وہ پور اعملہ، اس سے جڑے ہوئے عوام اور مصر کے قبطی عیسائی اور مصر میںاسرائیل کے جتنے بھی ایجنٹ تھے وہ سب کے سب شفیق کے ساتھ تھے، افسوس یہ ہوا کہ سعودی عرب اور امارات بھی شفیق کے ساتھا ہو گیا تھیلیاں کھل گئیں اس کے حق میں، اور پوری کوشش کی گئی ہرممکن کہ اس کو جتایاجائے لیکن وہ جیت نہیں سکا۔ عوام کی اکثریت مرسی صاحب کے ساتھ تھی۔ کامیاب ہو گئے وہ اور حکومت بنا لی۔ اب حکومت کی جو انہوں نے ابتدا کی وہ جس انداز سے کی اس کو بہت ہی ایپریشیئڈ کیا گیا، پورے عالم اسلام میں وہ ہیرو بن گئے۔ انہوں نے پہلی تقریر میںکہا کہ اگر میں غلط قدم اٹھاؤں گا تو عوام کو حق ہے کہ مجھے ہٹا دے اور اگر میں صحیح اٹھاؤں تو آپ میری تعریف کیجئے۔ تو ان کے بیٹے نے اسی وقت یہ بیان دیا کہ والد صاحب اگر آپ غلط قدم اٹھائیںگے تو سب سے پہلے میں ہوںگا جو میں آپ کو ہٹاؤں گا۔کافی اچھے جذبات کے ساتھ کام شروع ہوا لیکن انہیں دشواریاں پیش آنے لگیں۔ پولیس ، عدالت اور میڈیا اور خاص طور پر میڈیا نے تو ان کے خلاف طومار باندھ دیا اور ظاہر ہے کہ وہ تھوڑی سی مدت میں میڈیا پر قابو نہیں پا سکتے تھے۔ وہاں ٹی وی ریڈیو اسٹیشن وغیر موجود ہے مگر کوئی اسلامی خیال والا نزدیک نہیں بھٹک سکتا تھا۔ ایسا ماحول بنا دیا گیا اس میں تبدیلیاں لانا شروع کی گئیں۔ لیکن یہ تبدیلیاں کسی طرح گوارہ نہ تھی سینوں پر سانپ لوٹ رہے تھے۔ اور ان کو ناکام بنانے کیلئے خلیجی ممالک پوری سازش میں ملوث تھے اپنے پیسوں سے سازش کر رہے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ حکمت عملی جو تیار کی جا رہی تھی وہ حسنی مبارک کے حق میں اور فوج ، پولیس کے نظام کے حق میں وہ خاموشی سے درپردہ چلتی رہی۔ یہاں تک کہ اس کو وزیر دفاع بنایا مرسی صاحب نے عبدالفتح السیسی کو طنطاوی پہلے تھے ان کو ہٹایا گیا۔ ان کو انہوںنے وزیر دفاع بنایا اس اطمنان پر کہ اس شخص کے اندر لوگوں کے کہنے کے مطابق اوران کی اپنی کچھ معلومات کے مطابق دینداری ہے۔اس کے دینداری کے پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے اور امانت داری کے پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے وزیر دفاع بنا دیا۔ لیکن اسی وزیر دفاع کو جو ایک فوجی ٹولہ تھا اس کے دباؤمیں امریکہ کے ذریعہ خرید لیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اس کے اسرائیل اور امریکہ سے رابطے مسلسل رہے۔ اور دوسری طرف سعودی عرب سے رابطے تھے۔ اور یہ طے کیا گیا کہ اور آمادہ کیا گیالیکن وہ شروع میں تیار نہیں تھے جو رپورٹ شروع میں ملی لیکن آمادہ کیا گیا کہ انقلاب لانا ہے۔ توانہوں نے کہا کہ میں کیسے انقلاب لا سکتا ہوں عوام کو ہمارے ساتھ ہونا چاہئے، بدلنے کیلئے کچھ تو کرنا پڑے گا۔ کہا جاتاہے کہ۵۰۰ -۵۰۰ لیرا جو وہاں کاسکہ ہے ، ایک ایک فرد کو دیاگیا ہے جیسے یہاں ریلیلوں میںلانے کیلئے پیسے دیئے جاتے ہیں اور لاریاںبھر بھر کر لایاجاتا ہے ویسے ان کو پیسے دے کر میدان تحریر میں لایا گیا۔ اب اس میں ایک بڑی تعداد عیسائیوں کی تھی۔ ایک تعداد وہ تھی جو اسرائیل نوازوں کی تھی۔ ایک تعداد عام مسلمانوں کی تھی وہ لنفگے نوجوان ،بے دین تھے جن کو خرید کر لایاگیا۔ تعداد ان کی لاکھ ڈیڑھ لاکھ ہوگی شاید۔ اسے ملینوں بتایا گیا۔ یہاں تک کہ ہیلی کاپٹر کے ذریعہ سے جہاں مرسی صاحب کے حق میں مظاہرے ہورہے تھے ان میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ تھے ان مظاہروںکو بھی اپنے حق میں دکھایا گیا۔ یہ سب کام میڈیا کا تھا میڈیا ہول سول ان ہی کا کام کر رہا تھا۔
سوال: کیا سعودی عرب ودیگر اسلامی ممالک میں جوحکومتیں ہیں و ہ سب اسلامی تحریک کے خلاف ہیں؟
جواب: ’ہاں‘ بالکل یہ سب حکومتیں اسلامی تحریک کے خلاف ہیں۔
اس لئے کہ ان کی کرسی جو ہے ، ان کی کرسی جس ماحول میں قائم ہے وہ اندر کی خفیہ سازشوں اور بیرونی طاقتوں سے پیکٹ ہیں۔یعنی امریکہ ، اسرائیل اور یورپ۔
ان کے ساتھ جو ان کے معاہدے ہیں اورپھر جو ان کی زندگی جو غیر اسلامی ہے۔ اور یہ کہ ان کے خلاف انقلاب آنے نہ پائے۔ اور جیسے مصر ، لیبیا تیونس میں آیا وہ انقلاب ان کے یہاں نہ آجائے۔ اس کی خاطر انہوں نے ہر ممکن کوشش کی اسلامی انقلاب کو ناکام کرنے کی ۔
سوال، ۱۹۷۹ء میں ایران میں جواسلامی انقلاب آیا وہ کامیاب رہا۔
جواب۔ صاحب ، ایرانی انقلاب کا جہاں تک تعلق ہے تو پوری قوم ذہنی طور پر تیار ہو گئی تھی۔خمینی صاحب کے ساتھ قوم متحد ہو گئی تھی اور وہ انقلاب چاہتی تھی،اور انقلاب تو مصر میں بھی کامیاب رہا۔ انقلاب تو لیبیا میں بھی کامیاب رہا، انقلاب تو تیونس میں بھی کامیاب رہا اور انقلاب کی کامیابی بڑھتی چلی جاتی اگر یہ صورتحال نہ ہوتی کہ دیگر ممالک اسے ناکام بنانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیںگے۔ایران کا جہاں تک مسئلہ ہے تو ایران کا سب سے بڑا مخالف امریکہ تھا اور ایران کی پوری قوم انقلاب لانا چاہتی تھی انقلاب آگیا۔ اور کوئی ملک اس پوزیشن میں نہیں تھا اس کو ناکام کر دے۔لہٰذا وہاں انقلاب کو کامیابی ملی۔ یہاں جو انقلاب آئے اور انقلابات سے تعلق رکھنے والے جو عوام ہیں،حکومتیںہیں انہوں نے اپنے تحفظ کیلئے اس انقلاب کو ناکام کیااور اس میں ایک حد تک وہ وقتی طور پر کامیاب ہوئے ہیں ظاہر ہے کہ یہ کامیابی دائمی نہیں ہے۔بہر حال مرسی صاحب کے خلاف فوجی انقلاب لایا گیا وزیر دفاع صاحب ساری طاقتوں کے مالک بن گئے پھر ایک یہودی انسان عدلی منصور کو صدر بنا دیا گیااور جو کارروائیاں کی گئیں وہ ساری اسرائیل نواز تھیں اور اتنی رپورٹیں ہیںاسرائیل کے اخبارات کی، نیوز ایجنسیوں کی کتنی زیادہ خوشیاں اسرائیل میں اس مصری انقلاب سے منائی گئیںہیں پوری تاریخ میں۱۹۴۸ء سے آج تک ایسی خوشی کبھی حاصل نہیں ہوئی۔اور اسرائیل نے عبدالفتاح السیسی کو سب سے زیادہ پسندیدہ انسان قرار دیا۔اور اب پھر مصری حکومت نے جو کارروائی شروع کر رکھی ہے۔ جزیرہ نما سینامیں وہاں جو مجاہدین ہیں اسلامی تحریک کے لوگ ان کے خلاف جوکارروائی اور جس حد تک ہوئی ، خراب بات ہوتی ہے کہ کوئی حکومت اپنے عوام کوکچلنے کیلئے ہوائی طاقت استعمال کرے، بمباری کرے، محلوںکونشانہ بنایاجا رہا ہے، عورتیں بچے مارے جارہے ہیںبالکل انسانیت ختم ہوجائے۔حماس کا جہاں تک تعلق ہے ، فلسطینیوں میںحماس ہی ایک جرات مند اورغیر مند تنظیم ہے جس نے ہمیشہ اسرائیل سے ٹکر لی ہے خمینی صاحب بھی اس موید رہے ایران بھی ہمیشہ اس کی تائید کرتا ہے، تو حماس کا جہاں تک تعلق ہے وہ ایک طاقتورمجاہدانہ تنظیم ہے اس تنظیم کو کچلنے کیلئے جو اسرائیل نہیں کر سکا وہ اس سے کروایاجارہا، سعودیہ سے کروایاجا رہاہے اور جو کارروائیاں ہوئی ہیں وہ مرسی صاحب کو گرانے کے بعد سے اب تک جو ہو رہی ہیںساری کی ساری اسرائیل کی ہیں اب جہاں تک تعلق ہے سیریاکا یہاں پر ہم لوگوں کو! ایران پروقت پڑا ہے ایک طرح سے۔ سیریا کی ایک ظالم ، ڈکٹیٹر، بدکردارحکومت کو، میں اس حکومت کو جانتا ہوں۱۹۸۰ء سے جب ہمارے نوجوانوںکو حماس میں ماراگیا اخوان المسلمین جو حماس میں بیٹھے تھے وہاں سے تحریک لے کر اٹھے ہیں۴۰-۵۰ ہزار لوگوںکو شہید کیا گیاشہر وںکو اڑا دیا گیاحافظ ا لاسد کے زمانے میں جو بشار الاسد کے باپ تھے ،اب اس کے زمانے میں جب انقلاب اٹھا جیسے مصرمیںاٹھا، مصر میں حسنی مبارک کو کنارے کر دیاگیا،اس وقت کے صدرنے راہ فرار اختیار کیا، قذافی بہت زیادہ شیر بن رہے تھے اس کو چوہوںکی طرح مارا گیااس سے جو مقابلہ جو کیا صاحب ہوائی طاقت محلوں میںہوائی طاقت گولیاں برسابرسا کر استعمال کی گئی اس موقع پر چاہئے تھا کہ ایران اس کا ساتھ نہ دیتالیکن یہاں مسئلے کوشکل سنیت اور شیعت کے مقابلے کی دے دی گئی یہ بہت ہی بھیانک زہر تھا، اس میں ، تحریک خمینی بھی اس میں ختم ہو گئی، ختم ہو گئی تحریک جو سنیوں اور شیعوں کو جوڑنے کی تھی، لاسنی، لاشیعی، لا شرقی ، یہ تحریک شروع ہوئی تھی۔
سوال، ان کا جو معاملہ ہے اسٹریٹجک معاملہ ہے اس کو صرف کچلنا ہے امریکہ کو؟
جواب، دیکھئے ، بات دوسری ہو رہی ہے اب جو آئے ہیں جناب روحانی صاحب ، ان کی روحانیت نے سب ختم کر دیا ہے،
سوال ، وہ تھوڑا سا الگ گوشہ رکھتے ہیں؟
جواب۔ گوشہ نہیں!، پالیسی بدل گئی، جوپالیسی احمدی نژاد کی تھی وہ صحیح تھی، یہ جو پالیسی روحانی کی ہے اس سے ہم لوگ بالکل متفق نہیں ہیں اور جو شام میں ہو رہا ہے وہ ایران کے منصب اور مقام کے بالکل خلاف ہے۔ایک ایسی طاقت ہے وہاں پر جوشیعہ بھی نہیں، مجھے معلوم ہے ، میں شیعہ اثنا عشری ہوں کیا ، بات عقیدے پر ہے، نصیریوں کے عقیدے کے یہاں ہے،حسینیوں کے عقیدے کے یہاں ہے، اور میں ہوں حسینی، علی کا بیٹا، حسینی ہوں میں، میں نے شیعوں سے کہاں بڑے بڑے جلسوں میں کہاجہاں ان کی جماعت ہے کہ صاحب اگر تم جو اہلبیت کو مانتے ہو تو ہماری بات مانو، ہماری بات مانو، ہم اہلبیت ہیں ہم بتا رہے ہیںکہ حق کیا ہے باطل کیا ہے، اب وہاں پریہ کہ نصیری بدترین بدمعاش جو ان کے یہاں نہ نماز، نہ روزہ نہ زکوٰۃ، نہ حج،نہ عقیدہ صحیح، نہ توحید، نہ رسالت، کوئی صحیح تصور ہی نہیںتو مذہبی بنیاد پر بھی ان کی مدد نہیں ہونا چاہئے اور سیاسی بنیاد پر بھی ان کی مدد نہیں ہونا چاہئے کیونکہ عوام عوام سارے ، ظاہر ہے کہ پہلے بالکل پرامن اختلاف تھاکسی کے ہاتھ میں ڈنڈی بھی نہیں تھی۔اس وقت جب بالکل انہیں اکھاڑ دیا گیا ، بال نوچ لئے گئے ، چھوٹے چھوٹے نوجوانوں کوبری طرح ستایا گیااس نے مشہور کردیا لوگوں میں کہ ہتھیار اٹھائیں ، پھر جو تحریک شام میں چل رہی ہے اب اس تحریک کی مدد ہوناچاہئے کہ بھئی حکومتیں ہٹائی جائیں، عوام جمہوریت چاہتی ہے۔
حکومت کو جانا تو ہے۔
بھئی جاناتو ہے لیکن ڈھائی لاکھ آدمی مارے جاچکے ہیں،بیسیوں لاکھ لوگ کس طرح لوگ زندگی گزار رہے ہیںکہ شام کے خوشحال لوگ آج مصر میںپیسہ مانگ رہے ہیںیہ وہ مسئلہ جس میں ہم لوگوں کا سب بڑا اختلاف ایران سے ہے اگر ایران یہ نہ کرتا تو شایدآج امت ایران کے ساتھ ہوتی، ایران یہ نہ کرتا کہ صاحب، بھئی سارے مسلمانوں کی نمائندگی کرناہے تو آپ نہ ان کے عقیدوں کو چھیڑئے جس سے انتشارپیدا ہو نہ اس سیاست کو سامنے لائیے جو عوام کیخلاف ہو اورپورے ملت اسلامیہ کو جوڑنے کیلئے جو کام ہو سکتا ہے اس کو کیجئے۔
سوال:کیاابھی جو سعودی وفد دارالعلوم آنے والا تھا اس میں آپ۔۔۔۔۔؟
جواب: صاحب، ابھی بات تو وہاں کی ہو رہی ہے آپ یہاں پہنچ گئے، بات آگے بڑھ رہی ہے، شام میں جو کچھ ہو رہا ہے میں آپ لوگوں سے چاہوں گا کہ ہماری بات ایران والوں تک پہنچائیے۔
ایرانی وفد آیا وہ مجھ سے ملنا چاہتے تھے میرے پاس فون آیا کہ وفد لائبریری میں ہے آپ سے کہاں ملاقات ہوگی ، اس وقت میں اڑیسہ میں ہوں، میں ان سے ملتا تو دوبدوں کہتا کہ صاحب یہ پالیسی بالکل غلط ہے اس کو ختم کیجئے تاکہ ملت ایک دوسرے سے جڑے، اتحاد کی صورتحال قائم ہواور حاکموں کا ساتھ مت دیجئے حاکموں کا ساتھ دینے والے سب بدمعاش ہیں ڈکٹیٹر،مجرم ہیں۔
بشار الاسد کسی طرح ، کسی بھی طرح نرمی کے مستحق نہیں ہیں، سمجھے آپ اس کے خلاف ویسی ہی مہم چلنا چاہئے جیسے کہ قذافی کے خلاف، اور وہ چل رہی ہے لیکن بے تحاشہ انسان مارے جا رہے ہیں۔اس لئے حکومت ہٹ جاوے ، کیا مصیبت ہے۔آپ الیکشن لڑ لیجئے، الیکشن میں جو آجائے، ایران میں الیکشن ہوتا ہے کہ نہیں؟
مولانا: نژاد صاحب کی جگہ روحانی صاحب آگئے۔تو وہاں یہ تبدیلی ہو رہی ہے ، ہندوستان میں تبدیلی ہو رہی ہے،پاکستان میں تبدیلی ہو رہی ہے، ہم کہتے ہیں کہ شام کو بھی کیوں نہ جمہوری بنایا جائے سب کو موقع دیا جائے جو آجائے، آجائے۔
سوال : کتنے اراکین پر مشتمل تھا سعودی وفد آنے والا تھا؟
جواب :اصل تو وائس چانسلر صاحب تھے، محمد بن سعود یونیورسٹی ریاض کے، کچھ ان کے ساتھ ہوںگے وہاں سے اور سفارت خانے کے چار پانچ لوگ۔