سعودی عرب میں طلاق کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے، اور طلاق کی بیشتر وجوہات معمولی اور مضحکہ خیز ہوتی ہیں۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
جدّہ: سعودی عرب کے معروف اخبار عرب نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک سعودی شہری نے اپنی اہلیہ کو محض اس لیے طلاق دے دی کہ اس نے کار کا دروازہ بند کرنے سے انکار کردیا تھا۔
عرب نیوز لکھتا ہے کہ یوں تو اسلام نے مسلمانوں کو معمولی وجوہات یا غصے کی حالت میں طلاق دینے سے منع کیا ہے، لیکن یہ احکامات بھی ایک سعودی مرد کو اپنی بیوی کو طلاق دینے سے باز نہ رکھ سکے۔
سلطنت سعودی عربیہ میں ایک جائزے کی رو سے پندرہ برس سے زیادہ عمر کے ہر ایک ہزار مردوں میں دو اعشاریہ پانچ کی شرح سے طلاق کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب دنیا کے ان ممالک میں شامل ہوچکا ہے جہاں طلاق کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور یہاں 2012ء کے دوران 31 ہزار سے زیادہ طلاقیں ہوئیں جس کی شرح 21 فیصد کے لگ بھگ بنتی ہے۔
سعودی عرب میں سرکاری طور پر جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق طلاق کے رحجان میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ سلطنت سعودیہ العربیہ میں ہر نصف گھنٹے کے دوران ایک طلاق کے تناسب سے یہ رحجان 35 فی صد تک پہنچ چکا ہے۔
سعودی معاشرے میں طلاق کے بڑھتے رحجان پر سماجی ماہرین اور مذہبی رہنماؤں کی جانب سے گہری تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ سعودی عرب کے شہر تبوک میں کورٹس کے چیئرمین الشیخ سعود الیوسف نے طلاق کے بڑھتے رحجان کو سعودی سماج کے لیے خطرناک قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ کچھ عرصے میں سعودی عرب میں طلاق کا رحجان میں 40 فی صد اضافہ ہو چکا ہے۔
سعودی عرب کے ایک سماجی رہنماء اور طلاق کے اسباب پر گہری نظر رکھنے والے محمد العتیق کا کہنا ہے کہ ”سرکاری سطح پر طلاق کے جاری کردہ اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ رجحان ملک کے سماجی پہلو کے لیے نہایت نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک طرف سعودی عرب میں شادیوں کے رحجان میں کمی ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی طلاق کے واقعات میں اضافہ ہمارے معاشرے کے لیے کوئی حوصلہ افزا خبر نہیں۔“
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں طلاق کی کئی وجووہات ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بعض خاندان اپنے داماد پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ شادی سے پہلے وہ اپنی بیٹیوں کی صحیح کفالت بھی نہیں کرتے اور شادی کے بعد یہ توقع رکھتے ہیں کہ داماد ان کی خدمت بھی کرتا رہے گا، چنانچہ شوہروں پر سسرال کا یہ اضافی بوجھ طلاق کا سبب بن جاتا ہے۔
لیکن طلاق کے بہت سے واقعات کی وجوہات اکثر اسی طرح معمولی اور مضحکہ خیز تھیں، جیسی یہ ہے کہ محض کارکا دروازہ بند نہ کرنے پر طلاق دے دی۔
اس طرز کی طلاقوں کے واقعات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، یاد رہے کہ اس سال جون کے مہینے میں ایک سعودی شخص نے شادی کے محض تین ماہ بعد اپنی بیوی کو محض زیادہ رومانوی ہونےکے ’جرم‘ پر طلاق دے دی تھی۔
اسی طرح کی ایک مثال یہ تھی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو صرف اس لیے طلاق دینے کی کوشش کی تھی کیونکہ اس نے شوہر کے کہنے پر اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ بند نہیں کیا تھا۔
ایک نامعلوم سعودی شہری نے شادی کے دس ماہ بعد اپنی اہلیہ کو اسمارٹ فون کی ایپ کی مدد سے طلاق کا پیغام بھیجا اور پھر کہا کہ یہ پیغام حادثاتی طور پر چلا گیا تھا۔ تاہم اس کی اہلیہ نے یہ پیغام مقامی جج کی عدالت میں پیش کیا جس نے طلاق کو صحیح قرار دے دیا تھا۔
معمولی سی بات پر طلاق دینے کے حالیہ واقعہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے عرب نیوز لکھتا ہے کہ یہ دونوں میاں بیوی اپنے بچوں کے ہمراہ پکنک منانے گئے تھے، اور جب وہ گھر پہنچے تو بیوی کار سے اتری اور بچوں کو شوہر کی مدد کرنے کا کہہ کر گھر کے اندر چلی گئی۔
اس کے شوہر نے کار کا دروازہ بند کرنے کے لیے اسے بلایا، لیکن بیوی نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ اسے خود ایسا کرنا چاہیے کہ وہ کار سے نزدیک ہے۔
شوہر بیوی کے اس جواب پر بھڑک گیا اور اس نے اپنی بیوی سے کہا ’’اگر تم یہ دروازہ بند نہیں کرتی تو تم میرے لیے حرام ہو اور تمہیں میرے گھر میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
ان خاتون نے اس گھر کو چھوڑ دیا اور پھر وہ اپنے والد کے گھر چلی گئیں۔ بہت سے لوگوں نے اس جوڑے کے مابین مصالحت کی کوشش کی ہے، لیکن خاتون نے ان تمام کوششوں کو مسترد کردیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ وہ ایسے ’غیر ذمہ دار‘ مرد کے ساتھ اپنی شادی برقرار رکھنا نہیں چاہتیں۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق اس کے نمائندے نے سعودی عرب کے معروف مذہبی عالم شیخ عاصم الحاکم سے جب اس معاملے پر بات کی ، تو انہوں نے کہا کہ طلاق مرد کے عمل کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق اس سال کے ابتدائی دو مہینوں کے دوران صرف جدہ شہر میں طلاق کے ایک ہزار سے زائد واقعات ریکارڈ کیے گئے تھے۔
سعودی حکام کے کا کہنا ہے کہ منشیات اور الکوحل کے استعمال میں اضافہ طلاق کی شرح میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب میں طلاق دینے سے انکار پر خاوند سے عدالت باز پرس کرسکتی ہے البتہ عدالت کے کہنے کے باوجود خاوند کے ساتھ جانے سے انکار پر بیوی مالی حقوق سے محروم ہوجاتی ہے۔