ریاض: سعودی عرب نے ایران سے، شام سے فوج نکالنے کی شرط پر مذاکرات کی آمادگی ظاہر کی ہے۔
کنگ فیصل ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹڈیز کے چیئرمین اور سعودی خفیہ ادارے کے سابق سربراہ شہزادہ ترکی بن فیصل السعود نے برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کو انٹرویو کے دوران کہا کہ ان کا ملک ایران کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ ایران شام سے اپنے فوجی ہٹانے کے لیے رضامند ہو۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے کئی مشترکہ مفادات ہیں، جو اُنھیں ایک دوسرے کے قریب لاسکتے ہیں۔
پرنس ترکی نے ایران کے سابق صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ 1980 میں سابق سعودی شاہ عبداللہ کے ساتھ مل کر دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کو ختم کرنے میں کامیاب رہے تھے۔
واضح رہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کے مخالف تسلیم کیے جاتے ہیں، شام کے بحران میں جہاں ایران صدر بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ ہے، وہیں سعودی عرب ان کے مخالفین کا حامی ہے۔
انہوں نے شام سے فوجی نکالنے کے روسی فیصلے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ روس کے اس فیصلے سے شام میں خونریزی روکنے اور امن کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔
پرنس ترکی نے امریکی صدر براک اوباما کے سعودی عرب کے حوالے سے حالیہ بیان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر کو ان کے ملک پر بے بنیاد الزامات کا جواب دینا ہوگا۔
یاد رہے کہ براک اوباما نے سعودی عرب سمیت امریکا کے کئی اتحادی ممالک کو ’فری رائیڈرز‘ یعنی مفت خور کہا تھا۔
سعودی شہزادے نے کہا کہ سعودی عرب ایک ذمہ دار ملک ہے اور اس نے کبھی کوئی ’مفت سواری‘ نہیں کی، سعودی عرب دنیا میں دہشت گردی پھیلانے والا ملک نہیں ہے، جیسا کہ الزام لگایا جاتا ہے۔