واشنگٹن؛ کی رپورٹ کے مطابق، واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ حالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی سخت کھچائی ہوئی ہے اور بہت سے عرب حکام نے ایران پر پابندیوں میں شدت لانے کا مطالبہ کیا ہے اور ایران کے ـ بالخصوص جوہری پروگرام میں ـ کسی قسم کی رعایت دینے کو امریکہ کی بڑی غلطی قرار دیا ہے۔
اخبار نے جان کیری کے زبانی لکھا: ایران پر لگی پابندیوں کو سخت کرنے کی خواہش صرف اسرائیلیوں کی طرف سے نہیں آئی بلکہ سعودی حکام نے بھی یہی خواہش ظاہر کی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نے یہودی ریاست اور خلیج فارس کی عرب ریاستوں کے درمیان یکسان موقف کو “عرب اسرائیل اتحاد” کا نام دیا ہے اور اس کو نہایت عجیب اور حیرت انگیز قرار دیا ہے۔
اخبار لکھتا ہے: سعودی حکام اور صہیونی حکام ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات کے سلسلے میں مشترکہ زبان بول نہے ہیں اور ایک مشترکہ موقف پر متحد ہوچکے ہیں!
واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے: دبئی کے “مشرق بعید و خلیج فارس عسکری تجزیات وتحقیقات مرکز” میں “سیکورٹی و سیاسی امور کے تجزیہ نگار”، تھیوڈور کاراسک” (Theodore Karasik) نے مشہور جملہ “میرے دشمن کا دشمن میرا دوست” کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ صورت حال اس وقت ایران کے مقابلے میں اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان دکھائی دے رہی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ مزید لکھتا ہے: ایران کے جوہری پروگرام سے خلیج فارس کی ریاستوں کی تشویش نے ان ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان قربت کے نئے امکانات روشن کردیئے ہیں اور سعودی عرب جو اس وقت شام کے خلاف برسر پیکار مسلح شدت پسندوں کا اصلی حامی ہے، ممکن ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعاون کرکے لبنان میں حزب اللہ کے کردار کے کمزور کردے۔
اخبار نے آخر میں لکھا ہے: سعودی عرب نے 2002 میں عرب ـ اسرائیل ساز باز کی حمایت کی اس کے بعد شاید اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں بھی کردار ادا کرے۔
واضح رہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں کسی بھی اسلامی ملک کو دشمن ملک نہیں سمجھا گیا ہے بلکہ ہر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پڑوسی عرب ممالک سمیت اسلامی ممالک کے ساتھ برادرانہ تعلقات کو فروغ دے اور ایران کی دفاعی پالیسی میں بھی اسلامی ممالک کی عسکری قوتوں کو دفاعی قوت بڑھانے یا گھٹانے کا معیار قرار نہیں دیا جاتا اور ان کی قوت کو اپنی قوت سمجھا جاتا ہے اور پھر ایران کا جوہری پروگرام 100٪ پرامن ہے اور اس سے کسی کو بھی خطرہ محسوس نہيں ہونا چاہئے اور جہاں تک سعودی حکام سمیت عرب ریاستوں کے حکمرانوں کا تعلق ہے تو وہ ایران کی مخالفت صرف اور صرف یہودی ریاست کے تحفظ کے لئے کررہے ہیں اور وہ اسرائیل کے تحفظ کو ہی اپنی ناجائز حکمرانی کے تحفظ کا وسیلہ سمجھتے ہیں اور انہیں اپنے عوام کی طرف سے انقلابات کا بھی شدید خطرہ ہے چنانچہ وہ اسرائیل اور مغرب کے قریب جاکر اس خطرے سے بھی جان چھڑانا چاہتے ہیں ورنہ انہیں معلوم ہے کہ انہیں ایران کی طرف سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔