ابھا، عسیر: سعودی عرب میں بہت سی بیروزگار خواتین مجبوراً ہسپتالوں اور دیگر مراکز میں مردوں کو نہلانے کا کام کر رہی ہیں۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے جنوب مغربی صوبے عسیر کی میونسپلٹی میں خواتین کے شعبے کی ڈائریکٹر صلویٰ الق
حطانی کا کہنا ہے کہ مردوں کو نہلانے کے کام کے لیے ان کے پاس آنے والی خواتین میں زیادہ تر انٹرمیڈیٹ اسکول سرٹیفکیٹ یا یونیورسٹی کی ڈگری یافتہ ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان میں سے بعض فلاحی خدمت کے طور پر یہ ذمہ داری لیتی ہیں، جبکہ دیگر غربت سےمجبور ہوکر یہ ملازمت اختیار کرتی ہیں۔ میونسپلٹی اس صوبے میں مردوں کو نہلانے والے اداروں کی نگرانی کرتی ہے۔
یہاں بڑی تعداد میں مردوں کو نہلانے کے مراکز فلاحی وقف کے طور پر کام کرتے ہیں، جہاں مردے نہلانے کا کام کرنے والوں کو متعلقہ حکام یا عدالتوں کی جانب سے جاری کیے گئے لائسنس کے ساتھ مخصوص طریقہ کار کے تحت ملازم رکھا جاتا ہے۔
مردوں کو نہلانے کے ایک مرکز پر 29 برس کی سپروائزر ماؤدی عبدالعزیز کہتی ہیں کہ ’’میں نے اسلامک اسٹڈیز میں گریجویشن کیا ہے، لیکن ملازمت کے حصول میں مشکلات نے مجھے مردے نہلانے کے اس مرکز پر کام کرنے پر مجبور ہونا پڑا، بہت سے یونیورسٹی گریجویٹ خاص طور پر وہ جو غریب ہیں، یہ کام کررہے ہیں۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ یہاں انہیں ٹرانسپورٹ الاؤنس سمیت دو ہزار سعودی ریال تنخواہ ملتی ہے، اگرچہ ان کی ذمہ داری کہیں زیادہ ہے۔
ماؤدی عبدالعزیز نے ان سماجی ریّوں کا گلہ کیا جن کی وجہ سے اس طرح کے کام کرنے والوں کو حقیر نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔
کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی سے عربی زبان میں گریجویشن کرنے والی 35 برس کی فاطمہ عبدالسلام مُردوں کو نہلانے کے اپنے موجودہ کام سے ناخوش ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اپنے کام کے بارے میں پڑوسیوں اور معاشرے کے دیگر افراد کے منفی رویّوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
فاطمہ عبدالسلام نے کہا کہ وہ گریجویشن کرنے کے بعد نو سال تک سول سروسز کی وزارت کی مدد سے معقول سرکاری ملازمت کا انتظار کرتی رہیں، لیکن بالآخر ان کی امید ختم ہوگئی اور انہیں اس کام کو اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا، جس کے بارے میں زیادہ تر لوگ نفرت آمیز رویہ رکھتے ہیں۔
کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی سے خصوصی تعلیم میں بیچلر ڈگری یافتہ 36 برس کی صواد علی مردوں کو نہلانے کا کام کرتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’’میں مطلقہ ہوں اور اس شعبے میں چار سال سے کام کررہی ہوں۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ میں کئی سالوں تک اچھی جاب کی تلاش کرتی رہی اور اسی دوران مجھے طلاق ہوگئی۔ مجھے اپنے تین بچوں کی روزی روٹی کا بندوبست کرنا تھا، جو میری تحویل میں تھے اور میرے پاس کسی طرح کی کوئی آمدنی نہیں تھی۔ یہ واحد کام تھا، جو میرے لیے دستیاب تھا، اور اپنی غریبی کی وجہ سے میرے پاس اس کو اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
مردے نہلانے والی ایک اور خاتون اُمّ طائف کہتی ہیں کہ مردوں کو خاص طور پر ٹریفک حادثات میں ہلاک ہونے والوں کی مسخ شدہ لاشوں کو نہلانے کے لیے صبر اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا ایک مرتبہ ایک خاتون کی لاش میرے پاس لائی گئی، جو ایک ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوگئی تھیں۔ان کے جسم کے کچھ حصے موجود نہیں تھے۔ میں نے بہت صبر کے ساتھ اس میت کو نہلایا اور تکفین کی