۔۔۔برطانوی دفترِ خارجہ کی وزیر نے یہ کہہ کر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا کہ وہ غزہ پر حکومت کی حمایت نہیں کر سکتی ہیں
برطانیہ کی مخلوط حکومت میں شامل چند اراکین پارلیمان نے بیرونس سعیدہ وارثی کے مستعفی ہونے کی وجوہات کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ گذشتہ کئی ماہ سے برمنگھم میں شدت پسند مسلمانوں کے چند سکولوں پر قبضے، کابینہ میں حالیہ رد و بدل اور پھر غزہ کے معاملے پر وزیراعظم کیمرون کی پالیسی پر کھل کر
اختلافات کا اظہار کر رہی تھیں۔
مخلوط حکومت میں شامل دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے چار اراکین پارلیمنٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا:
’بیرونس وارثی نے فیلپ ہیمنڈ کی بطور وزیر خارجہ تعیناتی، وزیر کینتھ کلارک اور سابق اٹارنی جنرل ڈومینیک گریو کو ان کے عہدوں سے ہٹانے اور پولیس کے سابق انٹیلی جنس سربراہ پیٹر کلارک کی برمنگھم میں شدت پسند مسلمانوں کے چند سکولوں پر قابض ہونے کے انکوائری کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے تعیناتی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا جسے نظر انداز کر دیا گیا۔‘
ٹوری پارٹی کے سینیئر رکن نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ کابینہ کے کئی اراکین سمیت اس وقت بیک بینچرز نے کھل کر اپنے تحفظات کر اظہار شروع کر دیا ہے۔
برطانیہ کے مسلمان وزیر لارڈ طارق احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بیرونس وارثی کی وزیراعظم کیمرون سے ان تمام معاملات پر اختلافات کی خبروں کی تردید نہیں کی، بس اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ وہ اس پر کوئی بات نہیں کریں گے۔
حکمران جماعت گذشتہ سال سے ان سخت مقابلے کی سیٹوں پر مسلمان ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی انتھک کوششیں کر رہی تھی جہاں مسلمان ووٹرز کسی بھی پارٹی کی جیت میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔