نئی دہلی۔پاکستان کے عظیم اوپنر اور چیف سلیکٹر عامر سہیل کا خیال ہے کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں اس ہفتے شروع ہو رہا ورلڈ کپ کافی حد تک سلامی بلے بازوں پر انحصار کرے گا اور نئے قوانین کے تحت وہاں کی پچوں پر کھیلنا چیلنج ہوگا۔ پاکستان کی عالمی کپ 1992 میں خطابی جیت کے ہیرو میں رہے سہیل نے 10 میچوں میں 326 رنز بنائے تھے۔ سعید انور کے ساتھ پاکستان کی بہترین سلامی جوڑی کا حصہ رہے سہیل نے کہا کہ بلے بازی میں اچھی شروعات کرنے والی ٹیم ٹورنامنٹ میں آگے تک جائے گی۔
انہوں نے کراچی سے انٹرویو میں کہایہ ورلڈ کپ بہت حد تک سلامی بلے بازوں پر انحصار ہوگا جنہیں ٹیم کی کارکردگی کی سمت طے کرنی ہوگی۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی پچوں پر دو نئی گیند کا سامنا کرنا کافی چیلنج ہو گا اور یہ صحیح معنوں میں ان کا امتحان ہوگا۔ یہ پوچھنے پر کہ کس ٹیم کے پاس بہترین ابتدائی بلے باز ہیں، انہوں نے آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کا نام لیا۔ انہوں نے کہاآسٹریلیا اور جنوبی افریقہ بہترین فارم میں ہیں اور ان کے پاس بہترین سلامی جوڑی بھی ہے۔ آسٹریلیا کیلئے اننگز کا آغاز شاندار فارم میں چل رہے ڈیوڈ وارنر اور آرون فنچ گے جبکہ جنوبی افریقہ کے پاس ہاشم آملہ اور ڈی کاک کے طور پر قابل اعتماد سلامی جوڑی ہے۔ سہیل نے یہ بھی کہا کہ برصغیر سے کسی ٹیم کا سیمی فائنل میں پہنچنا انہیں اس بار مشکل لگ رہا ہے اور ہندوستان کی راہ میں رکاوٹ اس کی کمزور بولنگ ہوگی۔ سہیل نے کہامجھے لگتا ہے کہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کا سیمی فائنل میں پہنچنا طے لگ رہا ہے۔
چوتھی ٹیم انگلینڈ ہو سکتی ہے۔ ہندوستان کے پاس بھی موقع ہو سکتا ہے بشرطیکہ اس کے گیند باز بہتر کارکردگی کریں کیونکہ بولنگ ہندوستان کی سب سے کمزور کڑی ہے۔سہیل نے کہا کہ بائیں ہاتھ کی دو اسپنروں کو لے کر عالمی کپ کھیلنے کا ہندوستان ٹیم مینجمنٹ کا فیصلہ ان کی سمجھ سے باہر ہے۔ انہوں نے کہامجھے نہیں لگتا کہ بائیں ہاتھ کی دو اسپنروں کو لے کر آسٹریلوی پچوں پر فائدہ ملے گا۔
انہیں ایک دائیں ہاتھ کا لیگ اسپنر انتخاب کرنا چاہئے تھا۔انہوں نے پاکستان کی فٹنس مسائل پر تشویش ظاہر لیکن کہا کہ اس کے باوجود اس کی مضبوط بولنگ کے دم پر ٹیم آخری چار تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ تیز گیند باز جنید خان کے بعد محمد حفیظ بھی چوٹ کی وجہ سے ور
لڈ کپ سے باہر ہو گئے جبکہ فاسٹ بولر سہیل خان بنگلہ دیش کے خلاف پریکٹس میچ میں زخمی ہو گئے۔ سہیل نے کہاپاکستان سنگین فٹنس مسائل کا شکار ہے لیکن اس کے باوجود بولنگ میں کافی گہرائی ہے اور مخالف ٹیم کو سستے میں آؤٹ کرکے ٹیم اپنا مقام طے کر سکتی ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 15 فروری کو ہونے والے پہلے میچ کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ اس میچ میں سابقہ ریکارڈ معنی نہیں رکھے گا اور مہندر سنگھ دھونی کی ٹیم پر مزید دباؤ ہو گا۔ انہوں نے کہاہندوستان زیادہ دباؤ میں رہے گا کیونکہ وہ سابقہ چمپئن ہے جبکہ پاکستان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے۔ گزشتہ سال ایشیا کپ میں بھی ہندوستان کو مضبوط دعویدار مانا جا رہا تھا لیکن پاکستان نے اسے شکست دی تھی۔ گزشتہ سال دو مارچ کو ایشیا کپ کے اہم میچ میں پاکستان نے ہندوستان کو ایک وکٹ سے شکست دی تھی۔انہوں نے کہاٹورنامنٹ میں مثبت سوچ کامیابی کی کلید ہوگی اور کپتانوں کو مسلسل اپنے گیند بازوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی تاکہ وہ وکٹ لے سکیں۔ وکٹ لینے سے ہی میچ جیتے جائیں گے۔