لکھنؤ(نامہ نگار)سماجوادی پارٹی نے پارلیمانی انتخابات کے فوراً بعد ٹی وی چینلوں پر دکھائے جار ہے سروے کو خیالی بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ہر چینل کے الگ الگ اعدادوشمار ہیں۔ اس لئے ان کی غیر جانبداری مشتبہ ہوجاتی ہے۔ پارٹی کے ریاستی ترجمان راجندر چودھری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج آنے میں ابھی دیر ہے لیکن ٹی وی چینلوں پر خیالی سروے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
مسٹر چودھری نے کہا کہ اترپردیش کے ووٹروں نے ۲۰۱۲ء کے اسمبلی انتخابات میں بی ایس پی کو ہٹا کر سماجوادی پارٹی کو اقتدار سونپنے کا عزم کر لیا تھا اس نے پولنگ کے دن اپنی رائے بھی ظاہر کر دی تھی۔ جب نتائج آئے تو سماجوادی پارٹی کو مکمل اکثریت کے ساتھ ۲۲۴سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
اس وقت کے سروے بھی سماجوادی پارٹی کو کمزور سمجھ رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اترپردیش میں سماجوادی پارٹی سب سے مضبوط حالت میں ہے کانگریس اور بی جے پی کے درمیان دوسرے اور تیسرے نمبر کی لڑائی ہوتی رہی ہے۔ بی ایس پی کا تو کوئی نام لینے والا بھی نہیں رہا۔ جس مبینہ مودی راگ کا بڑا شور مچایا گیا اس کا اثر اترپردیش میں تو کہیں نظر نہیں آیا۔ ریاست کے ووٹروں کے سامنے سماجوادی حکومت کی تمام کامیابیاں تھیں۔ وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کے دور اقتدار میں ترقی کے ایجنڈہ کو عملی جامہ پہنایا گیا۔ مسٹر چودھری نے کہا کہ بڑی بات تو یہ ہے کہ بی جے پی-آر ایس ایس اور اس کی دوسری تنظیموں نے ریاست کے عوام کے درمیان فرقہ پرستی پھیلانے کی جو سازش کی سماجوادی پارٹی نے اس کی زبردست مخالفت کی۔
انہوں نے کہا کہ ملائم سنگھ یادو کی قیادت ہی بی جے پی کو دہلی تک پہنچنے میں روک رہی ہے ۔
اس لئے سماج کے ہر طبقے میں ان کی مقبولیت ہے۔ سیکولر ذہن اور سوچ کو وہی رفتار دیتے رہے ہیں۔ ایس پی ترجمان نے کہا کہ یہ تشویش ناک صورتحال ہے کہ کارپوریٹ گھرانے انتخابات کی غیر جانبداری کو متاثر کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سماجوادی پارٹی کو اعتماد ہے کہ پارلیمانی انتخابات ۲۰۱۴ء میں وہ مضبوط حالت میں رہے گی۔ عوام کو یقین ہے کہ سماجوادی جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں اور وہی فرقہ وارانہ طاقتوں کو روکنے کے اہل ہیں۔