نئی دہلی : ‘‘خواتین قانون ساز: ایک ابھرتے ہوئے ہندوستان کی تعمیر’’ ایک ایسے وقت میں بہت معنویت رکھتا ہے جب ہم نے ترقی کو اپنی اوّلین ترجیح بنالیا ہے اور خواتین کی اختیار سازی کی عالمی اور ملکی پیمانے پر کوشش کی جارہی ہے ۔
ان خیالات کا اظہار آج یہاں اقلیتی امور کی وزاررت کی مرکزی وزیر نجمہ ہپت اللہ نے خواتین قانونسازوں پر قومی کانفرنس کے مکمل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ آج کے حالات چار دہائی قبل کے حالات سے سے زیادہ آزمائشوں سے بھرے ہیں ایسے میں ملک میں خواتین قانون سازوں کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ یہ لازمی ہوجاتا ہے کہ سماجی اور معاشی ترقی میں ان کے رول کی قدر کا تعین کیا جائے ۔
محترمہ نے کہا کہ اس خیال کو چیلنج کرنے اور بدلنے کی ضرورت ہے کہ خواتین میں سرکاری عہدوں کو سنبھالنے کی صلاحیت محدود ہوتی ہے ۔خواتین کو اختیار ملنے سے پورے خاندان کو فائدہ ہوتا ہے اور اس طرح سماج کو فائدہ ہوتا ہے ۔ان سے آنے والی نسلوں کو اکثر فوائد کا سلسلہ قائم ہوجاتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ منتخب ہونے والی خواتین نمائندگان کے تئیں افسر شاہی کا صنفی تعصب ان منتخب خواتین کے فیصلہ لینے کے عمل میں شریک ہونے کی راہ میں حائل ہوتا ہے ۔یہ صورت حال اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ ایسا نظام اور ماحول تیار کیا جائے جو صنفی اعتبار سے حساس ہو، تاکہ خواتین کو عوامی شعبوں میں کام کرنے کا موقع ملے ۔
محترمہ نے بتا یا کہ 1999ء میں برلن میں ، G-8 ممالک اور کونسل آف یورپ کے ممبر ممالک کی پارلیمنٹوں کے صدور کی کانفرنس کو IPU کی پریذیڈنٹ کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے متنبہ کیا تھا کہ‘‘اگر ہمیں صحیح معنوں میں جمہوری مرتبے پر پہنچنا ہے ، تو مردوں اور خواتین کو لازمی طور پر مساوات کی بنیاد پر کام کرنا ہوگا ’’۔ اُسی سال برلن میں IPU کانفرنس کے دوران محترمہ ہپتاللہ نے اس بات پر زور دیا تھا کہ جس جمہوریت میں آدھی آبادی یعنی خواتین کی امنگوں کی عکاسی نہیں ہوتی، وہ جمہوریت مصنوعی اور جواز سے عاری ہوتی ہے ۔
اقلیتی امور کی وزیر نے اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ خواتین کو شمولیت سے محروم کرکے سماجی نظام کو درہم برہم کرنے کے لیے مذاہب اور روایتوں کا غلط استعمال کیا گیا ہے ۔ چونکہ پارلیمانی اداروں میں خواتین کی مناسب نمائندگی نہیں ہے ، اس لیے ترقیاتی پالیسیوں میں فطری طور پر ایک صنفی تعصب ہے ۔ نئی معیشت کے ابھرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی ضرورت ہے کہ خواتین کے لیے سماجی نیٹ ورک کو اور مضبوط بنایا جائے ۔
محترمہ نے کہا کہ تشدد، بے راہ روی اور خوف براہ راست سماج، اچھی حکمرانی اور مسلسل ترقی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ صنفی عدم مساوات اور تعلیم اور قانون ساز اداروں میں خواتین کی نمائندگی میں فرق کو دور کیا جائے ۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ بنیادی معیار کی سماجی خدمات تک مساوی رسائی کو فروغ دیا جائے اوروسائل، حقوق اور خدمات تک سب کی رسائی کو یقینی بنایا جائے ۔سرکار کے لیے لازم ہے کہ وہ بحیثیت مجموعی سب شہریوں کے لیے اور خصوصاً خواتین اور لڑکیوں کے لیے رہنے اور کام کرنے کا محفوظ ماحول فراہم کرے ۔ خواتین قانون سازوں کو چاہیے کہ وہ مہم چلائیں اور حمایتی گروپوں کا ساتھ دیں تاکہ سماجی تبدیلی عمل میں آئے اور خواتین اور لڑکیوں کے لیے زیادہ سازگار حالات پیدا ہوں۔