بحرالکاہل کی وسعتوں میں کھونے اور بچنے کی کہانیاں نئی نہیں ہیں. میکسیکو کے ایک شہری نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ سمندر میں 16 ماہ تک ایک کشتی میں بے یارو مددگار بھٹکتا رہا۔
ہوزے ایوون نامی اس شخص کی کشتی جمعرات کو بحرالکاہل میں جزائر مارشل میں شامل ایبن اٹل نامی ایک دورافتادہ مرجانی جزیرے کے ساحل پر آ لگی تھی جہاں وہ اب رو بہ صحت ہے۔
اس شخص کا کہنا ہے کہ وہ ستمبر سنہ 2012 میں میکسیکو سے ایل سلواڈور کے لیے اپنی کشتی پر نکلا تھا اور تبھی سے وہ سمندر میں بہتا چلا جا رہا ہے۔
جزیرہ ایبن کے دو لوگوں نے اسے اس وقت دیکھا جب اس کی 24 فٹ کی کشتی جزیرے کی چٹانوں میں آ پھنسی۔اس شخص کی داڑھی بےہنگم انداز میں بڑھی ہوئی تھی اور وہ صرف چیتھڑوں سے بنے جانگیے میں ملبوس تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ایبن کی میئر آئی ون ڈی بروم نے فون پر بتایا کہ ’ہم تب سے اسے مقوی سمندری غذا کھلا رہے ہیں اور اب وہ بہتر ہے۔‘
مارشل جزائر کے جنوب ترین جزائر کے جھرمٹ سے انھوں نے بتایا کہ ’اس کے دونوں گھٹنوں میں درد ہے اس لیے وہ اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ ورنہ وہ بہتر ہے۔‘
اسے جزائر مارشل سے لانے کے لیے سنیچر کی صبح ایک کشتی بھی روانہ کی گئی ہے۔
سنہ 2006 میں میکسیکو کے ہی تین افراد اس وقت سرخیوں میں آئے تھے جب وہ نو مہینوں کے بعد مارشل جزائر میں اسی طرح کی چھوٹی فائبر شیشوں والی کشتی میں دیکھے گئے تھے
ناروے کے علم انسانیات کے ایک طالب علم ولا فلسٹیڈ کے مطابق ’ایوان نے جمعے کو اسے بتایا کہ اس کا ایک ہم سفر بھی تھا جو کئی ماہ پہلے مر چکا تھا۔‘
اس خستہ حال شخص نے ولا کو بتایا کہ ’وہ کچھوے، پرندے اور مچھلیاں کھا کر زندہ رہا اور جب بارش نہیں ہوتی تھی تو وہ کچھوؤں کا خون بھی پی لیتا تھا۔‘
ان کے مطابق ’کشتی پر مچھلیاں پکڑنے کا کوئی سامان نہیں تھا اور اس شخص نے بتایا کہ وہ اپنے خالی ہاتھوں سے ہی کچھوے، مچھلیاں اور پرندے پکڑا کرتا تھا۔‘
ڈی بروم نے بتایا کہ انھوں نے ایوان سے تصویروں اور خاکوں کے ذریعے بات کی کیونکہ اسے انگریزی نہیں آتی تھی اور وہ ہسپانوی نہیں بول سکتی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’اس نے جو خاکے بنائے ہم نے اس کے ذریعے ہی اب تک اسے سمجھا ہے۔‘
میئر کے مطابق اس نے کہا کہ ’وہ ایل سلواڈور جا رہا تھا کہ اس کی کشتی بھٹکنا شروع ہو گئی لیکن اس کے بعد کے حالات بڑے دھندلے ہیں کہ یہ کب اور کیسے ہوا۔ گفتگو کے چیلنجز کے باوجود ایبن اٹل کے لوگ اپنی جانب سے اس کی مدد کی پوری کوشش کر رہے ہیں اور اس کے لیے کپڑے، کھانے اور مچھر دانیاں لا رہے ہیں تاکہ وہ آرام محسوس کرے۔‘
مرجان اور مونگوں کے جزائر میں مارشل جزائر کا شمار ہوتا ہے
مجورو جزائر کے محکمۂ پولیس کے حکام نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کی امدادی کشتی سنیچر کی صبح ایوان کو دارالحکومت لانے کے لیے روانہ ہو چکی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ’جب ایک بار وہ یہاں آ جائے گا تو اس کی شناخت کی جائے گی اور پھر اس کی وطن واپسی کا سلسلہ شروع ہوگا۔‘
واضح رہے کہ بحرالکاہل میں جنوبی میکسیکو اور مارشل جزائر کے درمیان ساڑھے 12 ہزار کلومیٹر تک کوئی جزیرہ نہیں ہے۔
اگر اس کی کشتی ایبن کی چٹانوں میں آکر نہیں پھنستی تو پھر ایک ہزار میل تک کوئی دوسرا جزیرہ نہیں تھا اور شاید پھر وہ پاپوا نیوگنی یا پھر سولومن جزائر سے ٹکراتا۔
واضح رہے کہ بحرالکاہل میں زندہ بچنے کی کہانیاں نئی نہیں ہیں۔
سنہ 2006 میں میکسیکو کے ہی تین افراد اس وقت سرخیوں میں آئے تھے جب وہ نو مہینوں کے بعد مارشل جزائر میں اسی طرح کی چھوٹی فائبر شیشوں والی کشتی میں دیکھے گئے تھے۔ وہ شارک کے شکار پر نکلے تھے اور سمندر کی وسعتوں میں بھٹک گئے تھے۔