رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کے اتباع کے کم از کم تین اہم پہلو بنیادی اہمیت کے حامل ہیں
:
فرد کی باضابطہ تربیت:
اس کا ایک پہلو فرد کی باضابطہ تربیت ہے تاکہ وہ ہمہ وقت شعور اور بیداری کی حالت میں رہے اور ضبطِ نفس (Discipline) کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرے۔
انسان کی روحانی ترقی کے نقطہ نظر سے الل ٹپ سرزد ہونے والے افعال اور ان افعال سے جنم لینے والی عادات ان رکاوٹوں کی مانند ہیں، جو رکاوٹوں والی دوڑ میں شریک گھوڑوں کی راہ میں کھڑی کی جاتی ہیں۔ ضروری ہے کہ ایسے افعال اور عادات کو کم سے کم اختیار کیا جائے جو طبیعت کے روحانی ارتکاز کو منتشر کرنے کا باعث بنتے ہوں۔ ہونا یہ چاہیے کہ ہم جو کچھ بھی کریں، وہ ہمارے اپنے ارادے اور ضابطہ اخلاق کے تابع ہو۔ لیکن اس مقام تک پ
ہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمہ وقت اپنی ذات کا مشاہدہ و محاسبہ کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔ اللہ کا ذکر اور اس کی عبادت محاسبہ? نفس کا ذریعہ ہیں، جن سے پوری طرح استفادہ کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو‘‘۔
(بخاری)
ضبطِ نفس کی ضرورت بیان کرتے ہوئے حضرت عمر? بن الخطاب نے فرمایا: ’’تم خود اپنا محاسبہ کرو، قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ عبادت کا اسلامی تصور صرف مذہبی فرائض تک محدود نہیں ہے، بلکہ فی الحقیقت وہ ساری انسانی زندگی پر محیط ہے، اور اس کا ہدف ہمارے روحانی وجودکو ہمارے مادی وجود سے جوڑکر ایک وحدت میں سمونا ہے۔ لہٰذا، ہماری کوششوں کا حتی الامکان ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنی زندگیوں میں سے خودفراموشی کی کیفیت اور ایسے عوامل کو جڑ سے اکھاڑ دیں جو انسان کے روحانی و مادی وجود میں یک جہتی پیدا نہیں ہونے دیتے۔ مشاہدہ? نفس اس راہ میں پہلا قدم ہے… یہ وہ انتہائی یقینی طریقہ ہے جس کی مدد سے فرد اپنے نفس کے مشاہدے اور احتساب کی تربیت کرسکتا ہے اور اپنی عادات اور اپنی روزمرہ زندگی کے بظاہر غیر اہم افعال کو اپنے شعور کے تابع کرسکتا ہے۔ بعض چھوٹی چھوٹی باتیں اور بظاہر غیر اہم افعال اور عادات ذہنی تربیت کے سیاق و سباق میں فی الحقیقت ہماری زندگی کے بڑے کاموں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ’’بڑی بڑی باتیں‘‘ اور ’’عظیم کام‘‘ اپنی بڑائی کی وجہ سے ہمیشہ واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں، لہٰذا وہ کم و بیش ہمیشہ ہمارے شعور میں رہتے ہیں۔ لیکن ’’چھوٹی چھوٹی‘‘ باتیں بہ آسانی نظرانداز ہوجاتی ہیں اور ہمارے کنٹرول سے بچ نکلتی ہیں، حالانکہ فی الحقیقت یہ کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہیں اور ان کی مدد سے ہم ضبط ِنفس کی صلاحیتوں کو کہیں زیادہ نتیجہ خیز اور اثرانگیز بناسکتے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ یہ بات بجائے خود اہم نہ ہو کہ کس ہاتھ سے کھانا کھایا جانا چاہیے، یا یہ کہ داڑھی کی کیا اہمیت ہے؟ لیکن نفسیاتی اعتبار سے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ زندگی کے معاملات کو محض الل ٹپ عادت کے طور پر نہیں بلکہ باقاعدہ ارادے کے تحت انجام دیا جائے۔ اس لیے کہ اس طرح ہم اپنے آپ کو محاسبہ? نفس اور اخلاقی پابندیوں پر عمل کرنے کے لیے تیار رکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ دیکھا جائے تو بظاہر یہ کوئی آسان کام دکھائی نہیں دیتا۔ ذہنی طور پر سست ہونا، جسمانی طور پر سست ہونے سے زیادہ نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ ایک ایسے شخص کو لمبی سیر کے لیے لے جائیں جو اکثر بیٹھے رہنے کا عادی ہو، تو وہ جلدی تھک جائے گا اور پیدل چلنے کے قابل نہیں رہے گا۔ لیکن اس کے برعکس وہ شخص نہیں تھکے گا جو عمر بھر پیدل چلنے کا عادی رہا ہو۔ اس کے لیے یہ سیر تھکن کا باعث نہیں ہوگی اور وہ اسے ایک خوش گوار جسمانی ورزش کے طور پر لے گا۔ اس سے یہ حکمت اور (مومنانہ) طرزِ زندگی کا یہ رمز مزید واضح ہوجاتا ہے کہ سنت کے دائرے میں انسانی زندگی کے تقریباً ہر پہلو کو کس لیے شامل رکھا گیا ہے۔ اگر ہم سے مسلسل اپنے تمام اعمال اور خطائوں کو جانچنے پرکھنے کا تقاضا کیا جاتا رہے تو ہماری محاسبہ? نفس کی استعداد بھی مسلسل بڑھتی رہے گی، اور ایک خاص مدت کے بعد ہماری فطرت ِ ثانیہ بن جائے گی۔ جب تک یہ تربیت جاری رہے گی، ہمارا اخلاقی تساہل بھی کم سے کم تر ہوتا چلا جائے گا۔
لفظ ’’تربیت‘‘ کے استعمال سے قدرتی طور پر یہ مراد ہے کہ اس کا نتیجہ تربیتی عمل کے مقصد پر منحصر ہوگا۔ اگر سنت پر عمل زوال پذیر ہوکر محض حرکات و سکنات کا ایک معمول بن جائے تو اس کی تعلیمی و تربیتی قدر و قیمت بھی ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ گزشتہ صدیوں میں مسلمانوں کا طرزِ عمل بھی کچھ ایسا ہی رہا ہے۔ جب رسولِ رحمت? کے صحابہ رضوان اللہ اجمعین اور ان کے بعد آنے والی نسلوں نے اپنی زندگی کے ہر معاملے کو اپنے آقا? کے اسوہ? حسنہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی تو انہوں نے مکمل فہم و شعور کے ساتھ ہدایت پر مبنی ہر اْس حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیا جو روحِ قرآن کے مطابق ان کی زندگیوں کی تشکیل میں معاون ہوسکتا تھا۔ اسی شعور اور ارادے کی بدولت وہ اتباعِ سنت سے پوری طرح فیض یاب ہوسکے۔ اگر بعد کے زمانوں میں آنے والے مسلمان ان نفسیاتی امکانات سے بھرپور فائدہ نہ اٹھاسکے، جن کا دروازہ کھلتا ہی سنت کی پیروی سے ہے تو یہ نعوذ باللہ ’’سنت‘‘ کی خامی نہیں تھی۔
اس پورے گزشتہ عہد میں مسلمانوں کے انحطاط اور اضمحلال کا ایک سبب کسی نہ کسی حد تک تصوف بھی ثابت ہوا ہے جو انسان کی فعال توانائیوں کو غیر اہم قرار دیتا ہے اور اْن توانائیوں پر زیادہ زور دیتا ہے جو محض تاثرات و تصورات کے ادراک میں معاون ہوسکتی ہیں۔ چونکہ سنت ِنبوی? پر عمل اسلام کے ابتدائی ایام ہی سے مسلمانوں کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا، اس لیے دور اوّل سے متصل زمانے میں تشکیل پانے والا صوفی ازم دین کی اس بنیاد کو زائل کرنے میں کامیاب تو نہ ہوسکا، لیکن وہ اس کی فعال قوت کا اثر کسی حد تک کم کرنے کا سبب ضرور بنارہا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ صوفیوں کے نقطہ نظر سے سنت ایک ایسی مجرد علامت بن کر رہ گئی جس کی اہمیت نظریاتی و تصوراتی تو تھی مگر عملی نہیں تھی۔ وہ اسے محض روحانی اور صوفیانہ تناظر میں دیکھتے تھے۔ دوسری جانب مذہبی علما اور فقہا کے نزدیک اسلام محض ایک فقہی یا قانونی نظام تھا۔
نتیجتاً عام? المسلمین کے لیے سنت اپنے حقیقی معانی کھوچکی تھی۔ اس کے باوجود کہ مسلمان قرآنی تعلیمات سے استفادہ کرنے اور سنت ِنبوی? کی روشنی میں قرآنی تعلیمات کی تعبیر اور ان کی تفہیم کے عمل سے محروم ہوچکے تھے، لیکن تعلیمات ِ نبوی? کے سیاق و سباق اور ان کی تعبیر کے پیچھے کارفرما تصور میں قطعاً کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ آج بھی پوری طرح قابلِ اطلاق ہیں۔ چنانچہ کوئی وجہ نہیں کہ ایک بار پھر سنت ِنبوی? کو عملی زندگی کا حصہ نہ بنایا جاسکے۔
دوسری جانب ناقدین کہتے ہیں کہ سنت کامقصد محض علامتوں پہ اصرار، ظواہر پرستی اور رسوم کے پابند زاہدِ خشک تیار کرنا ہے۔ ان نقادوں ] اور سنت کے منکروں[ کا یہ تبصرہ جھوٹ پر مبنی طعن سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ فی الحقیقت اتباعِ سنت کا مقصد باشعور، صاحبِ عزیمت اور حوصلہ مند مردانِ کار تیار کرنا ہے۔ نبی کریم? کے صحابہ و صحابیات? اسی طرح کے انسان تھے۔ وہ قلب ِبیدار کے مالک ہمہ دم متحرک اور احساسِ ذمہ داری سے ہر قدم اٹھانے والے لوگ تھے۔ کردار کی یہی وہ خوبیاں ہیں جن میں ان کی کرشماتی صلاحیت و استعدادکا راز پوشیدہ ہے اور انہی خوبیوں کی بدولت انہوں نے اپنی انسانیت ساز تاریخی کامیابیوں سے دنیا کو حیران کردیا تھا۔ بلاشبہ یہ اتباعِ سنت ہی کا اولین اور منفرد پہلو ہے۔
نتیجتاً عام? المسلمین کے لیے سنت اپنے حقیقی معانی کھوچکی تھی۔ اس کے باوجود کہ مسلمان قرآنی تعلیمات سے استفادہ کرنے اور سنت ِنبوی? کی روشنی میں قرآنی تعلیمات کی تعبیر اور ان کی تفہیم کے عمل سے محروم ہوچکے تھے، لیکن تعلیمات ِ نبوی? کے سیاق و سباق اور ان کی تعبیر کے پیچھے کارفرما تصور میں قطعاً کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ آج بھی پوری طرح قابلِ اطلاق ہیں۔ چنانچہ کوئی وجہ نہیں کہ ایک بار پھر سنت ِنبوی? کو عملی زندگی کا حصہ نہ بنایا جاسکے۔
دوسری جانب ناقدین کہتے ہیں کہ سنت کامقصد محض علامتوں پہ اصرار، ظواہر پرستی اور رسوم کے پابند زاہدِ خشک تیار کرنا ہے۔ ان نقادوں ] اور سنت کے منکروں[ کا یہ تبصرہ جھوٹ پر مبنی طعن سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ فی الحقیقت اتباعِ سنت کا مقصد باشعور، صاحبِ عزیمت اور حوصلہ مند مردانِ کار تیار کرنا ہے۔ نبی کریم? کے صحابہ و صحابیات? اسی طرح کے انسان تھے۔ وہ قلب ِبیدار کے مالک ہمہ دم متحرک اور احساسِ ذمہ داری سے ہر قدم اٹھانے والے لوگ تھے۔ کردار کی یہی وہ خوبیاں ہیں جن میں ان کی کرشماتی صلاحیت و استعدادکا راز پوشیدہ ہے اور انہی خوبیوں کی بدولت انہوں نے اپنی انسانیت ساز تاریخی کامیابیوں سے دنیا کو حیران کردیا تھا۔ بلاشبہ یہ اتباعِ سنت ہی کا اولین اور منفرد پہلو ہے۔
معاشرتی اہمیت و افادیت
اتباعِ سنت کا دوسرا پہلو اس کی معاشرتی اہمیت و افادیت ہے۔ یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ بالعموم معاشرتی کش مکش ایک دوسرے کے افعال و عزائم کے بارے میں غلط فہمیوں سے جنم لیتی ہے۔ معاشرے کے افراد کا بے شمار مزاجوں اور ذہنی رجحانات میں تقسیم ہونا ایسی غلط فہمیوں کا باعث بنتا ہے۔ مختلف مزاجوں سے مختلف عادات اور رویّے پروان چڑھتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ پختہ تر ہوجاتے اور پھر وہ مختلف افراد کے درمیان دیوار بن کر حائل ہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر اس کے برعکس معاشرہ ایک ہی جیسی اقدار پر مبنی عادات کا حامل رہے تو زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ افراد ایک دوسرے کے ہمدرد و غم خوار ہوں گے اور ذہنی طور پر ایک دوسرے کو زیادہ اچھی طرح سمجھ سکیں گے۔ لہٰذا اسلام، جو معاشرے اور فرد دونوں کی یکساں بھلائی اور بہبود کا خواہاں ہے، اس نکتے پر زور دیتا ہے کہ معاشرے میں شامل افراد کو منظم انداز میں یکساں عادات اور مجلسی آداب کی تربیت دی جائے، خواہ ان کا معاشرتی و معاشی مرتبہ ایک دوسرے سے کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی اس سے بڑھ کر معاشرے کی تشکیل و تعمیر کرتی ہے۔ یہ معاشرے کو باہم مربوط اور مستحکم بناتی ہے اور ایسی باہمی منافرتوں کا سدباب کرتی ہے جو مغربی معاشرے میں ’’معاشرتی سوالات و اعتراضات‘‘ کے نام پر پیدا کی گئیں اور جن کی وجہ سے مغربی معاشرہ فکر، نظر اور عمل کے بہت بڑے تضاد و فساد کا شکار ہوا۔ ایسے معاشرتی سوالات اْس وقت سر اٹھاتے ہیں جب یہ محسوس کیا جانے لگے کہ بعض ادارے، روایات اور رسم و رواج بے بنیاد، خام اور ناقص ہیں، لہٰذا ان پر تنقید کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ ’’مثبت‘‘ تبدیلیوں کے لیے راہ ہموار کی جاسکے۔ اہلِ مغرب کے اس المیے کے برعکس جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، وہ اپنے آپ کو احکام قرآن کا پابند اور اس پابندی کے نتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا بھی پابند سمجھتے ہیں۔
مسلم معاشرے کی ظاہری شکل و صورت کے برقرار رہنے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مسلمان اپنے معاشرے کو تشکیل دینے والے عوامل کو الہامی اور ابدی سمجھتے ہیں۔ جب تک یہ عقیدہ قائم ہے معاشرتی تشکیل کے بنیادی عوامل کو تبدیل کرنے کی نہ تو کوئی ضرورت ہے اور نہ اس کی کوئی خواہش سر اٹھائے گی۔ انہی حقائق کی روشنی میں ہم قرآن کریم کے اس حکم کی حکمت اور منشا کو سمجھ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کو ’’بنیانِ مرصوص‘‘ یعنی سیسہ پلائی دیوار کی طرح متحد ہونا چاہیے۔ اگر ہم اس اصول کا اطلاق اپنی اجتماعی زندگی پر کریں تو معلوم ہوگا کہ معاشرے کو ذیلی مسائل اور جزوی ’’اصلاحات‘‘ کے لیے اپنی توانائیاں خرچ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، کہ ان کی جو بھی قدر و قیمت ہے وہ محض وقتی و عارضی ہے۔ اسلامی معاشرے کو فکری و طبقاتی کش مکش کے الجھائو سے نکل کر قانونِ الٰہی اور اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ? حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے مادی و فکری مسائل کے حل کے لیے توانائیاں بروئے کار لانا چاہئیں۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے فرد کے روحانی ارتقا کے لیے کوششوں کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ یہی اسلامی معاشرتی تنظیم کا حقیقی نصب العین ہے۔
رہبر کامل?
آیئے، اب اتباعِ سنت کے تیسرے پہلو کا جائزہ لیتے اور دیکھتے ہیں کہ اس پر پابندی سے عمل کرنا کتنا ضروری ہے۔ اس نظامِ حیات میں ہماری روزمرہ زندگی کی متعدد جزئیات نبی کریم? کے اسوہ? حسنہ پر مبنی ہیں۔ ہم جو کچھ بھی کریں ہمیں ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ اس معاملے میں نبی کریم? کا عمل کیا تھا یا انہوں نے اس بارے میں کیا فرمایا۔ یوں بنی نوع انسان کی عظیم ترین شخصیت ہماری روزمرہ زندگی کے معمول میں رچ بس جاتی ہے، اس کا روحانی فیض حقیقی زندگی میں جاری و ساری رہتا اور ہمارے وجود کا مستقل اور فعال حصہ بن جاتا ہے۔ اس راستے کو منتخب کرنے کے بعد ہم شعوری طور پر زندگی کے ہر معاملے میں یہ معلوم کرتے رہتے ہیں کہ کس کس معاملے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزعمل کیا تھا۔ یہی ہے وہ صراطِ مستقیم جس پر چلتے ہوئے ہم بتدریج یہ جان لیتے ہیں کہ اللہ کے رسول? صرف وحی لانے والے ہی نہیں بلکہ وہ ساری زندگی کے لیے ہمارے رہبر بھی ہیں۔
اس مرحلے پر ہمیں لازماً یہ ایک فیصلہ کرلینا چاہیے کہ آیا ہمیں حضرت محمد? کو دنیا کے دوسرے حکیم و دانا انسانوں کی طرح محض ایک حکیم و دانا انسان کے طور پر لینا چاہیے، یا نوعِ انسانی کے لیے اللہ تعالیٰ کا آخری نبی اور رسول ماننا چاہیے جن کا ہر ہر فعل وحی الٰہی کے تابع تھا؟
اس بارے میں قرآن مجید کا نقطہ نظر بالکل صاف، واضح اور ہر شک و شبہ سے بالا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں خاتم الانبیا اور رحمت للعالمین? بناکر بھیجا۔ ان کی رہنمائی اور احکام کے کسی حصے سے منہ موڑنا خود اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے منہ موڑنے یا اسے کم تر سمجھنے کے مترادف ہوگا۔ مزید برآں سنت پر عمل سے انحراف یا ایسا خیال رکھنے والا شخص اس سوچ کا حامل قرار پائے گا کہ اسلام کا پیغام کوئی حتمی پیغام نہیں، بلکہ انسانی مسائل کے جو متعدد مختلف حل پیش کیے گئے، ان میں سے وہ بھی ایک حل ہے، اور یہ فیصلہ اب فرد کی صوابدید پر ہے کہ ہم پیغام اسلام کو اختیار کریں یا کسی دوسرے حل کو، جو غالباً یکساں طور پر سچا اور کارآمد حل ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ بظاہر ایک آسان راستہ ہے، کیونکہ اس پر چلتے ہوئے اخلاقی اور عملی طور پر کسی حکم یا ہدایت کی پابندی لازم نہیں رہتی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ راستہ ہمیں کہیں بھی لے جاسکتا ہے مگر روحِ اسلام کی طرف ہرگز نہیں لے جاسکتا۔ اس بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
(ترجمہ) ’’آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین (نظام حیات) مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت (ہدایت) تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین چن لیا‘‘۔ (المائدہ: 5:3)
ہم اسلام کو تمام دینی نظاموں کے مقابلے میں برتر سمجھتے ہیں کیونکہ یہ ساری کی ساری زندگی کو اپنے دامنِ رحمت میں سمیٹ لیتا ہے۔ اسلام بیک وقت دنیا اور آخرت، روح اور بدن اور فرد اور معاشرے کو یکساں اہمیت دیتا ہے۔ وہ نہ صرف انسانی فطرت کے ارفع امکانات کو نگاہ میں رکھتا ہے بلکہ اس میں مضمر مجبوریوں اور کمزوریوں کو بھی ملحوظ رکھتا ہے۔ اسلام ہم پر کسی ایسی ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا جسے ادا کرنا ہمارے لیے ممکن نہ ہو۔ وہ ہمیں اپنے ذاتی امکانات اور صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کار لانے کے لیے رہنمائی عطا کرتا ہے اور فہمِ حق اور مشاہدہ? حق کے اس اعلیٰ مقام پر لے جاتا ہے جہاں نظریے اور عمل میں کوئی تضاد اور خلیج حائل نہیں رہتی۔
لاریب اسلام دوسرے راستوں کی طرح ایک راستہ نہیں بلکہ واحد راستہ (الصراط المستقیم) ہے، اور وہ برتر انسان? جس نے اس کی تعلیمات سے ہمیں روشناس کرایا، وہ انسانی تاریخ کے عظیم رہنمائوں میں سے محض ایک رہنما نہیں ہیں بلکہ ہادی? خاص (The Guide) ہیں۔ اس ہادی برحق? کے ہر حکم پر عمل کرنا اور ان? کے اسوہ? حسنہ کی پیروی کرنا ہی اسلام ہے۔ اسی لیے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے روگردانی یا اسے ترک کرنا فی الواقع حقیقت ِاسلام سے روگردانی ہوگی۔