چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کے ایک علاقے کرامے میں حکام نے داڑھی والے نوجوانوں، برقع، حجاب اور سکارف پوش خواتین پر پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ قدم امنِ عامہ کی صورتحال بہتر کرنے اور علاقے میں استحکام پیدا کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
آس پاس, چین
سنکیانگ میں گذشتہ کچھ عرصے سے پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ سنکیانگ کے حکام ان حملوں کا الزام اویغور آبادی پر لگاتے ہیں جبکہ اویغور رہنما ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
ایک سرکاری اخبار کرامے ڈیلی میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق حکام نے داڑھی والے نوجوانوں اور برقع پوش خواتین پر 20 اگست تک پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے پر پابندی عائد کی ہے۔ کرامے میں ایک سالانہ میلے کا انعقاد ہو رہا ہے۔
کرامے سنکیانگ کے دارالحکومت ارومچی سے چار سو میل دور واقع ہے۔
چین کے قومی اخباروں نے کرامے ڈیلی کی رپورٹ کو نمایاں طور پر شائع کیا ہے۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق پانچ طرح کے لوگوں کو پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کی کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی: برقع پوش، نقاب پوش، سکارف پہننے والی عورتیں، داڑھی والے نوجوانوں اور اسلامی نشانیاں پہنے ہوئے مسافروں کو پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
سفر کی اجازت کسے نہیں
برقع پوش خواتین
نقاب پوش خواتین
سکارف پہننے والی عورتیں
داڑھی والے نوجوانوں
اسلامی نشانیاں پہنے ہوئے مسافر
ایسے مسافر جو تعاون نہیں کرتے ان کی اطلاع پولیس کو دی جاتی ہے۔
کچھ روز پہلے کاشغر میں ملک کی سب سے بڑی مسجد عیدگاہ کے امام کو مبینہ طور پر ہدف بنا کر قتل کیا گیا ہے۔
74 سالہ جمعہ طاہر کو بدھ کے روز ایک مسجد کے باہر مبینہ طور پر چاقو گھونپ کر ہلاک کیا گیا۔ عیدگاہ مسجد 600 سال پرانی مسجد ہے اور جمعہ طاہر کو اس کی امامت پر چین کی کمیونسٹ پارٹی نے تعینات کیا تھا۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جمعہ طاہر اویغور برادری میں پسند نہیں کیے جاتے تھے کیونکہ وہ مسجد میں تبلیغ کرتے ہوئے کمیونسٹ پارٹی کی پالیسیوں کی تعریف کرتے تھے۔
رمضان میں کئی سرکاری دفاتر نے رمضان کے دوران مسلمان عملے کے روزہ رکھنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں چین پر اویغور علیحدگی پسندوں کے خطرے کے حوالے سے مبالغہ آرائی کا الزام لگاتی ہیں تاکہ اویغور آبادی کے خلاف کارروائی کی جا سکے اور ان کی مذہبی اور ثقافتی آزادی پر پابندیاں لگائی جا سکیں۔