مفتی محمد عامر مظہری قاسمی
جنرل سیکریٹڑی الخیر فاونڈیشن جالے
حیدرآباد کا بے باک خوبصورت اور نڈر نوجوان بیرسٹر اسدا لدین اویسی جو اپنی بے باکی اور مسلم مسائل کو ہرجگہ دلیری کے ساتھ اٹھانے کے لئے جانے جاتے ہیں اور اس وقت حال یہ ہیکہ ملک کا بچہ بچہ اس کو دیکھتے ہی پہچانتا ہے ,ایک دن بہار کے ایک اردو اخبار میں ان کی تصویر چھپی میری بھانجی عائشہ اور بھانجہ تنظیم الھدی نے جسکی عمر صرف 6/سال کی ہے اس نے مجھ سےپوچھا اویسی چچا ہیں میں نے تعجب کیا کہ اتنی چھوٹی بچی اور بچے اس کو اپنے قریبی رشتہ داروں کے نام تک معلوم نہیں وہ ایک ایسے شخص کو جانتی ہے جس سے دور کا بھی رشتہ نہیں اخبار میں ان کی تصویر سے پہچان گئی۔
تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ آزادی کے بعد مسلمانوں پر ہورہے ظلم وزیادتی کے خلاف جس دلیری کے ساتھ اسدالدین اویسی نے باطل طاقتوں کو آواز دیا ہے ,شا ید تاریخ میں ایسی بے باکی کی مثال کم ملتی ہو ,گجرات کو جب آگ کے حوالے کیا گیا اور بڑی بے رحمی کے ساتھ مسلمانوں کی زندگی کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ,دوکانوں کو بلوائیوں کے ذریعہ لوٹا گیا,ماں کی پیٹوں سے زندہ بچوں کو نکال کر سر راہ قتل کیا گیا ,زندگی کی بھیک مانگنے والوں کو تلواروں اور تیروں سے چھلنی کیا گیا,بیاہی اور بن بیاہی بہنوں اور عورتوں کو بے آبرو کیا گیا ,ایسے موقعہ پر اسمبلی اور پارلیمنٹ میں نہ جانے کتنے نام نہاد مسلمان تھے لیکن کسی نے ٹھیک سے اپنے منھ کو نہیں کھولا اور آقاو¿ں کے چشم ابرو کی طرف ٹکٹکی باندھتا دیکھتا رہا ,ویسے نام کے مسلمانوں نے اسلام کے نام پر ہمیشہ ووٹ حاصل کرکے اس کا استحصال کرتے ہوئے داد عیش حاصل کیا ہے , مجھے بھاگلپور کا وہ الکشن خوب یاد ہے جب سید شاہ نواز حسین پارلیا منٹ کے ممبر ہوئے تھے الکشن سے قبل انہوں نے مسلمانوں کے گاو¿ں محلے اور ٹولے میں آکر یہ بات کہی تھی کہ اگرچہ ہم بی جے پی کے امیدوار ہیں لیکن ہیں تو مسلمان آپ ہمیں ووٹ دیجئے ہم آپ کے مسائل کو سنجیدگی سے اٹھا ئیں گے یہ بھی مقدر ہے کہ نام کے شروع میں سید ہے اور اخیر میں حسین ہے ,بھاگلپور کے مسلمان اہل بیت سے بےانتہا محبت کے ساتھ حسینی بھی ہیں ,یہ ایمان کا حصہ بھی ہے ,حسینی مسلمانوں نے دل کھول کر یہ دیکھے بغیر کہ بی جے پی کے ماتھے پر مظلوم مسلمانوں کے خون کا دھبہ اب تک موجود ہے لیکن اس کے باوجود ایک مسلمان یہ کہتے ہوئے جذباتی ووٹ کیا کہ ہمیں ان یادوں کو ڈھوکر کیا ملے گا چلو ایک مسلمان تو پارلیا منٹ چلا جائیگا ,اور ایسا ہی ہوا وہ جیت کر چلے گئے اور اس پانچ سالہ عرصہ میں کبھی مسلمان یاد نہیں آئے ,ایک موقعہ پر برادران وطن نے بھاگلپور سے تقریبا 25/کیلو میٹر کی دوری پر ایک خوبصورت مندر کی تعمیر کی جس کے افتتاح کے لئے محترم ممبر پارلیمنٹ سید شاہ نواز حسین کو دعوت دیا وہ اس تقریب میں شرکت کے لئے تشریف لا ئے بالکل اسی گاو¿ ں سے متصل غریب مسلمانوں کی بستی جہانگیر پور نام کی بستی ہے ,اس گاو¿ں کے لوگوں کو جب ان کے پروگرام کی اطلاع موصول ہوئی تو دوچند لوگوں نے ان سے باضابطہ پروگرام لیا اور انہوں نے اس کو منظوری بھی دی اور پورے گاو¿ں کو اس لئے بھی دلہن کی طرح سے سجایا کہ ایک سید زادہ ایم پی میرے گاو¿ں تشریف لا رہے ہیں ,پروگرام کے مطابق وہ مندر کی افتتاح کے لئے آئے لیکن جب ان سے کہا گیا کہ یہاں سے صرف 1/کیلو میٹر کی دوری پر جہانگیر پور بیسی گاو¿ں جانا ہے جس کا پروگرا م آپ نے پہلے سے دے رکھا ہے تو ان گاو¿ں والوں کو یہ کہتے ہوئے واپس کردیا کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے نہیں جاسکتے ہیں۔
یہ ہیں ہمارے وہ مسلم نمائندے جو اسلام کے نام پر کامیاب ہوکر پارلیمنٹ جاتے ہیں اور آقاو¿ں کے تلووں کو چاٹ کر اپنی عزت کی ضمانت لیتے ہیں ,لیکن اس کے باجود وہ مسلمان ہیں ,اسی فکر کے مسلمان مختلف پارٹیوں میں یہ کہتے ہوئے اپنی روٹی سیک رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے نمائندہ ہیں ,ایک موقعہ پر ایک کانگریسی لیڈر سے ہم نے سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ کی پارٹی کا یکساں سول کورڈ سے متعلق جو موقف ہے آپ اس سے کہاں تک متفق ہیں ,تو انہوں نے جواب دینے کے بجائے مجھے کرتا پائجامہ اور ٹوپی میں دیکھ کر فورا کہا کہ مولوی ملا کو سیاست سے کیا تعلق ہے ,ہمیں افسوس ہوا کہ جو علما کی تاریخ سے ناواقف ہو مسلمانوں کی کیا نمائندگی کریں گے , انہیں شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ پوری دنیا میں جو مثبت سیاسی کا نظریہ ہے وہ اسلام اور علمائ ہی کی دین ہے ۔
حضرت فاروق اعظم کی سیرت بیان کرتے ہوئے مو¿رخوں نے لکھا ہے کہ وہ بیس لاکھ مربع میل رقبے پر حکمراں تھے اور سب سے زیادہ فتوحات بھی حضرت عمر فاروق کے دور میں ہوئی معرکہ کربلامیں حضرت امام حسین یزیدکے درمیان کیا ایمان کفرکی جنگ تھی ؟نہیں بلکہ یزید جس نے ملوکیت کی انتہا پر پہنچ کر اسلامی معاشرے کو کھوکھلاکردیا ،حدود ا?کی خلاف ورزیاں، شریعت ِمحمدیکی تبدیلی ،حرام وحلال کے امتیازات کو ختم اور عوام کو محکوم بناکر محاصل(ٹیکس )اپنی ذا ت اور امرائ پر خر چ کرتاتھا۔اس ماحول میں عوام کی دعوت واصرار پر امام حسین نے اسلامی تہذیب اور سیاسی قدروکی بحالی کیلئے کربلا کاسفر کرکے یزیدی سیاست کوہمیشہ کیلئے ملیامیٹ کرکے دین نبی کی بالادستی اور اسلامی فلاحی حکومت کی بحالی کیلئے اپنی اوراپنے رفقائ کی قربانیاں دی۔یہ سیاست نہیں توکیاہے۔شاید وہ بھول گئے کہ جغرافیائی اعتبارسے دنیا کی سب سے بڑی ریاست (حکومت )خلافت ِعثمانیہ جو کہ دوسوسال پر محیط تھی۔اس کے روح رواں بھی راسخ العقیدہ مسلمان ہی تھے۔خلافت عثمانیہ کاخاتمہ عیسائی جنگوں کی کارستانی تھی (موجودہ مغربی وامریکی ونیٹو) خلافت عثمانیہ ترکی سے نکل کریورپ کو متاثرکررہی تھی اور آنے والے وقت میں پورایورپ خلافت عثمانیہ کے ماتحت ہوسکتاتھا۔اور خود ہمارے ہندوستان میں جب انگریز قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے، یہاں کی دولت و ثروت کوبے دریغ لوٹنے لگے، یہاں کے باشندوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگے اور یہاں کی تہذیب سے کھلواڑ کرنے لگے اور اس کا سلسلہ مزید بڑھتا ہی گیا، پانی جب سر سے اوپر ہوگیا، تو ہندوستانیوں کے دلوں میں آزادی وطن کا جذبہ پیدا ہوا اور سب سے پہلے مسلمانوں نے اس خطرے کی سنگینی کو محسوس کیا، سراج الدولہ اور سلطان ٹیپوں شہید?? اور دیگر مسلم فرماں روا اپنی تمام ترقوتوں کے ساتھ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ جنگ میں کود پڑے اور یوں تحریک آزادی کی ابتدائ ہوئی پھر یہ تحریک رکی نہیں بلکہ اس نے زور پکڑنا شروع کیا اور اب علمائ ہند کفن باندھ کر انگریزوں کو للکار نے لگے اور یہ ایسی جماعت تھی جس کی جفا کشی عزائم و ہمم ، صبر آزمائی ، دور اندیشی اور ایثار و قربانی نے اس دور کی تاریخ کو انقلاب آفریں بنادیا اور مولانا شاہ عبد العزیز دہلوی ، مولانا اسمٰعیل شہید، مولانا عبد الحئی اور آگے چل کر علمائ دیوبند ، مولانا قاسم نانوتوی، شیخ الہند، مولانا گنگوہی، حافظ ضامن شہید ، مولانا حسین احمد مدنی اور مفتی کفایت اللہ اور مولانا آزاد مولانا ابو الماحاسن سجاد مولاما منت اللہ رحمانی وغیرہ جیسے پیکر استقلال اور کوہ گراں پیدا ہوئے ، جنھوں نے اپنی تقریروں، تحریروں؛ بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے آزادی وطن کی بنیاد رکھی۔ اور ہندوستان کو آزاد کرایا، اس لیے .مسلم قیادت واقعی ملک کے مسلمانوں کی ضرورت ھے… اسکے بغیر ھندوستانی مسلمانوں کے مسائل حل نھیں ھوسکتے… ھم اگر ملک میں مسلم قیادت کو ابھرنے نھیں دینگے تو دوسرے کے دروازوں پر کاسہئ گدائی لیکر بھٹکتے ھی رھینگے.. کبھی نام نہاد سیکولر کانگریس کے دروازے کھٹکھٹائینگے جہاں سے ھمیں مسلم مسائل کو حل کرنے کے وعدے کے سوا کوئی خوشخبری نھیں ملے گی… کبھی فرقہ پرست ملائم کی جوتیاں سیدھی کرینگے پھر بھی کچھ حاصل نھیں ھوگا.. کبھی نتیش اور شردپوار جیسے فرقہ پرستوں سے ھم آس لگا بیٹھیں گیے اور کبھی لالو پرشاد کے دسترخوان کو سجانے کیے لیے متخلف پکوان سے سجائیں گے اور اس کی جی حوضوری کرتے ہوئے سر پر سرخواب لگانے کی کوشش کریں گے اور کبھی کانگریس کے ٹھیکے داروں کی منت سماجت کرتے ہوے عہدوں کے طلب گار ہوں گے، لیکن ہوگا وھی وعدے پر وعدہ… حاصل کچھ نھیں…ھم مسلمانوں کو غیروں پر تو مکمل بھروسہ ھے لیکن جب اپنوں کی بات آتی ھے… اپنی قیادت پیدا کرنے کی بات کی جاتی ھے تو ھمارے سیکولر مسلم لیڈر ھی اس کی مخالفت میں تگ و دو کرنے لگتے ھیں… ان کو پتہ نھیں مسلم قیادت سے کیا بیر ھے ؟….کسی سے انکو فنڈ ملتا ھے یا یہ کسی پارٹی کا آلہئ کار ھوتے جو انکو راجیہ سبھا کے سیٹ کا خواب دکھا کر ان سے کچھ بھی کروالیتی ھے… یہ اپنے ذاتی مفاد کے لئے قوم کے مفاد کو پسِ پشت ڈال دیتے ھیں… ان کو مسلم قائدین کی آواز بی جے پی کی لگنے لگتی ھے.. مسلم قائدین کے اندر انکو تکبر اور تعصب نظر آتا ھے جبکہ یہ خود اپنے گریبان میں جھانک کر کیوں نھیں دیکھتے… اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ھوگا کہ ان کو کوئی پارٹی مسلم قیادت کے خلاف لکھنے کے لئے فنڈ دیتی ھے.انکے اندر تکبر اور تعصب کوٹ کوٹ کر بھرا ھوا ھے… یہ بخوبی جانتے ھیں کہ اگر کوئی مسلَّم مسلِم قائد پیدا ھوگیا تو ھمارے پیٹ کا کیا ھوگا. اسلئے ان کو اپنے پیٹ کے خاطر یہ مخالفت کرنی پڑ رھی ھے… نھیں تو یہ بخوبی جانتے ھیں کہ مسلم قیادت ھمارے لئے کتنا ضروری ھے.. ابھی ان ہی کو پیسے دیکر مسلم قیادت کی اہمیت و ضرورت پر تقریر کے لئے کہہ دیا جائے تو یہ سب سے پہلے پڑھینگے ” ان اللہ لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما بانفسھم ” پھر اس آیت کا ترجمہ بھی اپنے الفاظ میں نھیں کرینگے بلکہ شاعرِ مشرق علامہ اقبال کا حوالہ دیکر یہ شعر پڑھیں گے:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نھیں بدلی.
نہ ہو جسکو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا.
پتہ نھیں ان کو اویسی کہاں سے متکبر نظر آنے لگا… متعصب نظر آنے لگا.. ایسا لگتا ھے کہ انہوں نے اویسی کے ساتھ ایک لمبی مدت گزاری ھے یا انکے ساتھ کاروبار کیا ھے… اویسی جیسا جرالقلب قائد اگر کسی قوم کو ملا ھوتا تو وہ قوم کتنی ترقی کرگئی ھوتی اسکا اندازہ نھیں کیا جاسکتا… یہ اپنی ریا کاری کو نھیں دیکھتے کہ خلوت میں انکا عمل کیا ھے… جلوت میں کیا کرتے ھیں…. اپنے تکبر وریا کاری کو چھپانے کے الزام دوسروں کر سر پہ دھرتے ھیں. علامہ غزالی ر حمہ اللہ نے بھت عمدہ تجزیہ پیش کیا ھے. انما فسدت الرعایا بفساد الملوک, وفساد الملوک بفسادالعلماء , وفساد العلماءبسبب استیلاءحب المال والجاہ۔
یہ بھی مسلمہ حقیقت ھے کہ عوام کو قائد ایسا ھی ملتا ھے جیسی عوام خود ھوتی ھے… اگر عوام متکبر اور ریاکار ھوگی تو قائد بھی ایسا ھی ھوگا… اس ضابطے کی رو سے اب ان کو اپنا احتساب خود کرنا چاھیئے. اس لیے باوجود اس کے کہ موجودہ بھار اسمبلی الیکشن میں بہت دور سے آئے ہوے اسے مہمان جن کے دل میں اسلام اور مسلمانوں سے بے پناہ محبت ہو ان کی قدر کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہر طور سے ان کا خیال ہمارا فریضہ اور اخلاقی ذمہ داری بھی ویسے بھی گزشتہ اسمبلی الیکشن میں سیمانچل سے بی جے پی ام ایل اے کی ہی اکثریت رہی ہے اس پس منظر میں یہ کہنا کہ اسد الدین اویسی کے آنے سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا نہایت ہی غیر ذمہ دارانہ بات ہے، اور یہ کہنا بی جے پی کے آلہ کار ہیں نہایت ہی غلط فکر مندی کی ترجمانی کرتا ہے، ویسے بھی اگر سیاسی ذرائع کی مانے تو سیکولر اتحاد بہت کم مسلمانوں کو ٹکٹ دے رہی ہے اس پس منظر میں مسلمانون کو بہت سخت فیصلہ لیتے ہوئے اسد الدین اویسی کی پارٹی کو کامیاب کرنے کی کوشش کرنی چاھیے اور خاص طور سے اس موقع سے علمائ کو قائدانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اس فکر کے ساتھ کہ اسدالدین اویسی ابھی وقت کی ضرورت ہے۔ (ےو اےن اےن)