اساتذہ کے خلاف آن لائن بدسلوکی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے
اساتذہ کو ایک عرصے سے آن لائن تنگ کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اساتذہ کی ایک یونین این اے ایس یو ڈبلیو ٹی کے مطابق سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ اساتذہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
این اے ایس یو ڈبلیو ٹی کا کہنا ہے کہ اساتذہ کو جنسی، نسلی، اور صنفی گالم گلوچ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور ان کے حلیے کے بارے میں توہین آمیز تبصرے کیے جاتے ہیں۔
ادارے کے مطابق سوشل میڈیا پر بعض والدین بھی اس عمل میں حصہ لے رہے ہیں۔
رواں سال یونین کے ڈیڑھ ہزار ارکان سے اس سلسلے میں سوال پوچھے گئے تو ان میں سے 60 فیصد نے کہا کہ انھیں بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گذشتہ سال یہ شرح 21 فیصد تھی۔
ایک واقعے میں ایک استاد کی تصویر آن لائن پوسٹ کی گئی جس کے نیچے توہین آمیز کلمات لکھے ہوئے تھے۔ ایک اور واقعے میں طلبہ نے ایک حاملہ استانی کی تصویر پوسٹ کر کے اس کے نیچے گالیاں لکھیں۔
ایک اور استاد کو اس کے شاگردوں نے نو ماہ تک فحش پیغامات بھیجے اور سوشل میڈیا پر ان کے جعلی اکاؤنٹ بنائے۔
یونین کا کہنا ہے کہ ایک استانی کو یہ پیغام بھیجا گیا: ’میری خواہش ہے کہ اسے کینسر ہو جائے۔‘
جن اساتذہ کو گالیاں دی گئیں ان میں تقریباً نصف نے کہا کہ یہ گالیاں ان کے شاگردوں نے دیں، 40 فیصد کا کہنا تھا کہ ان کے پیچھے والدین کا ہاتھ ہے، جب کہ 12 فیصد کے مطابق ان کے ذمہ دار طلبہ اور والدین دونوں ہیں۔
دو تہائی کے لگ بھگ اساتذہ نے کہا کہ ان کے شاگرد توہین آمیز کلمات لکھتے ہیں، جب کہ تقریباً ایک تہائی نے کہا کہ ان کے شاگرد ان کی مرضی کے بغیر ان کی تصاویر اور ویڈیو بنا لیتے ہیں۔
ایک تہائی کے بارے میں ان کے بطورِ استاد کارکردگی پر تبصرے کیے گئے، نو فیصد پر طلبہ نے نامناسب رویے کا الزام لگایا، جب کہ آٹھ فیصد کو دھمکیاں دی گئیں۔
یہ بات بہت تشویش ناک ہے کہ اس سال اساتذہ کے خلاف گالم گلوچ کے سلسلے میں اس قدر اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات بھی اتنی ہی پریشان کن ہے کہ والدین بھی اس کام میں شریک ہیں۔
یونین کے جنرل سیکریٹری کرس کیٹس
اس عمل میں شامل آدھے سے زائد طلبہ کی عمریں 14 سے 16 کے درمیان ہے۔
یونین کے جنرل سیکریٹری کرس کیٹس کہتے ہیں: ’یہ بات بہت تشویش ناک ہے کہ اس سال اساتذہ کے خلاف گالم گلوچ کے سلسلے میں اس قدر اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات بھی اتنی ہی پریشان کن ہے کہ والدین بھی اس کام میں شریک ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’ان ناشائستہ، ذلت آمیز اور ذاتی تبصروں سے اساتذہ کی صحت پر منفی اثر پڑ رہا ہے، جس سے ان کے اندر اپنے کام کے بارے میں اعتماد میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔