ایک پارسی، ایک مسلم، ایک ہریانہ کے جٹ، ایک سردار، ایک پنجابی اور ایک دلی کے پولیس اہلکار میں کیا چیز مشترک ہے؟ وہ کچھ اور نہیں صرف ڈولی (سونم کپور) ہے، یعنی ایک لٹیری دلہن یا بھاگنے کی عادی دلہن۔سونم کی آخری فلم “خوبصورت” کے بعد ڈولی کی ڈولی ایک خوشگوار ریلیف ہے اور اس کی بڑی وجہ اس فلم کی پوری کاسٹ ہے۔سونو شراوت (راجکمار رای) کی رانجھے انداز کی شادی جس میں ملائکہ اروڑا خان کے آئٹم نمبر ‘فیشن ختم’ کا تڑکا لگا ہے، ڈولی کی شادی کے مس ایڈونچرز کا آغاز ہوتا ہے یہاں تک کہ ملائکہ اروڑا نے بطور راگنی اس دیہاتی شادی میں بالکل صحیح انداز میں خود کو پیش کیا ہے اور ہر کوئی یہ سوچ کر حیران ہوتا ہے کہ آخر انگلش میڈیم ڈولی کس طرح ہندی میڈیم ماحول میں فٹ ہوسکے گی۔مگر ماحول میں فٹ ہونا تو ڈولی کے ذہن میں کبھی تھا ہی نہیں۔ وہ سہاگ رات میں محبت کی سوغات دودھ پیش کرتی جس میں نیند کی گولیاں ملی ہوتیں تاکہ دولہا گہری نیند سوجائے اور جیسے ہی ایسا ہوتا تو دلہن دولہے کو چھوڑ کر باقی سب کچھ سمیٹ کر رفو چکر ہوجاتی۔
یہ رنگ ڈھنگ پوری فلم میں ڈولی کی چکربازیوں کا تعین کرتے ہیں، عمر، مذہب اور ذات کی کوئی پابندی نہیں مگر سہاگ رات پر مکمل پابندی اسے پسند ہے۔ایک خوبصورت دلہن کے فرار کے بعد سونو کا سونے پٹ مینشن میں مجرم خاندان دوبارہ اکھٹا ہوتا ہے اور ٹائٹل سانگ کی دھن پر ناچتا نظر آتا ہے۔ اس کے بعد مزید دولہوں کے ساتھ دھوکا ہوتا ہے اور لوٹنے کی یہ سرگرمیاں آگے بڑھتی چلی جاتی ہیں مگر انہیں دو محاذوں پر مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔اس مرحلے میں ایک سخت گیر پولیس افسر روبن سنگھ (پلکٹ شرما) فلم میں سامنے آتا ہے جو اس لٹیری دلہن اور راجو (محمد ذیشان ایوب) کو گرفتار کرنے کا بیڑہ اٹھاتا ہے اور بتدریج وہ اس سیریل دلہن کی محبت میں گرفتار ہوتا چلا جاتا ہے۔ڈولی کی ڈولی اتنی ہی سادہ ہے جتنی اس میں دھوکے بازی کی گیم بیان کی گئی ہے، کوئی پیچیدہ کردار نہیں، کوئی پس پردہ کہانی نہیں، کوئی گہرا راز اس کے ناقابل پیشگوئی پلاٹ سے جڑا نظر نہیں آتا۔
ڈاکو ڈولی اور مجرمانہ سرگرمیوں کے پس منظر کی کمی، جہیز کے لالچی ڈوبے جی، پیار کے بخار کا شکار راجو،دیدی اور آلو پراٹھا بنانے والی ماں جیسے کردار سب ہر ایک کو ان کے مقاصد کے اندازے لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔
اوما شنکر سنگھ کے اسکرپٹ میں ہمیں ڈولی کے ماضی کی انتہائی مختصر تصویر دکھائی گئی ہے جس سے ہم اس کے رجحان کا احساس کرنے لگتے ہیں مگر ایسا نظر آتا ہے کہ ڈولی اس کام سے لطف اندوز ہوتی ہے جو وہ کرتی ہے، یہ ایک دھوکے باز لڑکی کو غیرمعذرت خواہانہ انداز میں پیش کرنا ہے جو بدلا نہیں گیا اور یہی ڈولی کی ڈولی کی ہائی لائٹ ہے۔درحقیقت اپنے سادہ انداز میں یہ فلم شادی اور مردانہ بالادستی کے نظام کے منافقانہ عناصر پر سوالات اٹھاتی ہے۔سونم کپور نے ڈولی کے کردار میں حیران کیا ہے، کیونکہ یہ ایسا کردار تھا جو ان کے روایتی بگڑی ہوئی امیر لڑکیوں کے کرداروں (عائشہ اور خوبصورت) یا تشدد زدہ روح (رانجھنا اور موسم) سے بالکل مختلف ہے۔
سونم کپور کا بڑی اسکرین پر محدود کام ان کے حق میں جاتا ہے کیونکہ ڈولی کو لوگ زیادہ سے زیادہ دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کی تمام فلمیں اور ملبوسات کے بہترین انتخاب کے ساتھ سونم نے کیمرے کے سامنے خاص شعور، آسانی اور ہم آہنگی پیدا کرلی ہے۔پلکٹ شرما اور محمد ذیشان ایوب کے بارے یقین ہوجاتا ہے کہ وہ بدحواس لورز ہیں، پلکٹ کے بطور اچھے پولیس والے کے معمولات ہماری دلہن کو درست وقت میں مدد فراہم کرتے ہیں مگر غلط مقام پر۔ محمد ذیشان بے بسی سے محبت میں گرفتار ہونے کے علاوہ کچھ نہیں کرپاتا جیسا ڈولی کہتی ہے ” میں ایسی لڑکی نہیں ہوں یار”۔راجکمار رای کا گرفتار پر پہلو سے محبت میں گرفتار جٹ جیسا ہی نظر آیا، ایسے افراد کو گورگایں مال یا دیسی اکھاڑے میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ دلہن کے تعاقب میں ان کی کوششیں اور کردار ڈولی کی محبت میں حقیقی معنوں میں گرفتار نظر آتا ہے اور یہ دیکھ کر مایوسی بھی ہوتی ہے کیونکہ ان دونوں کو ساتھ دیکھنا زیادہ اچھا لگتا۔
ورون شرما اور ان کی خودپسند پنجابی ماں (ارچنا پورن سنگھ) نے فلم کے مزاح میں مزید اضافہ کیا۔ ایسا نظر آتا ہے کہ ارباز خان نے اپنے بھائی سہیل خان کے کامیڈی شو سے صلاحیت کا مستحکم پول دریافت کرلیا تھا۔پوری کاسٹ نے ڈولی کی ڈولی کو دیکھنا بہت آسان کردیا ہے
اور اس میں موجود مزاح بہت کم مقامات پر ہنسنے پر مجبور کردیتا ہے مگر اس میں گدگدا دینے والے عنصر کی کمی ہے۔ مجموعی طور پر ہر ایک کی اداکاری اچھی رہی اور ہر ایک نے اپنا کام بخوبی کیا یہاں تک کہ ملائکہ اروڑا کی تھکی ادائیں بھی قابل ذکر ہیں۔جہاں تک سا?نڈ ٹریک کی بات ہے تو سونم اور انیل کپور فلم کمپنی نے ایک نیا رججاں ایجاد کیا۔ ساجد واجد کی موسیقی فلم “خوبصورت” کی یاد دلاتی ہے، جیسے ‘بابا جی کا ٹھلو’ ایک اور ‘ ماں کا فون’ ہے، اسی طرح ‘ فیشن ختم’ ایک اور ‘ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے’، تاہم شاعری اور موسیقی بہت زیادہ متاثر کن نہیں۔
ابھیشیک ڈوگرا کی ہدایتکاری میں روانی اور تسلسل نظر آتا ہے اور ان کا فلم کے اختتام کا انتخاب یعنی ڈولی کی اپنے دھوکے بازی کے انداز کے ساتھ گھر واپسی (سلمان خان کی تصویر کے ساتھ) ایک خوشگوار ریلیف تھا۔ ہم اکثر لاپروا، خودمختار اور خوداعتماد خواتین کو شادی کے بعد ذمہ داریوں کے بوجھ میں بندھا دیکھتے ہیں تو ڈولی کو اپنے فیصلے کرتے دیکھنا دیکھنے کے قابل ہے۔اگر ڈولی کی ڈولی میں پسند کرنے کے لیے کچھ زیادہ نہیں تو اس کے ساتھ ساتھ اس میں ناپسند کرنے کے لیے بھی کچھ زیادہ نہیں اور یہ ہم بدترین منظرنامے کی بات کررہے ہیں۔ ۱۴۰منٹ کی ویڈیو دیکھنے والوں کو حیرت میں گم کردیتی ہے اور اس طرح اسے دیکھنا آسان اور خوشگوار تجربہ ثابت ہوتا ہے۔