سوڈان میں اسی ماہ کے اوائل میں صدارتی انتخابات کے لیے ووٹ ڈالے گئے تھے۔آج سوموار کو الیکشن کمیشن کے منتظمین نے صدارتی انتخابات کے نتائج کا اعلان کیا ہے۔حزب اختلاف نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔
عمرالبشیر نے انتخابی مہم کے دوران ووٹروں سے کہا تھا کہ وہی سوڈان کو بعض دوسرے عرب ممالک میں ہونے والی اتھل پتھل سے بچا سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ عرب بہاریہ ممالک میں مغرب کی حمایت سے جمہوریت کے لیے خواہشات کو داخلی استحکام پر ترجیح دی گئی تھی۔
واضح رہے کہ سوڈان اس وقت گوناگوں مسائل سے دوچار ہے۔اس کے مغربی علاقے دارفور میں سنہ 2003ء سے خانہ جنگی جاری ہے اور مقامی قبائل خرطوم حکومت سے زیادہ خودمختاری کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد کررہے ہیں۔اس کے علاوہ سنہ 2011ء میں جنوبی سوڈان کی علاحدگی کے بعد سے دو اور علاقوں بلیو نیل اور جنوبی کردوفان میں بھی مرکزی حکومت کے خلاف مزاحمتی سرگرمیاں جاری ہیں۔
ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت نے خود صدر عمر حسن البشیر کے خلاف دارفور میں بغاوت کو کچلنے کے لیے فوجی طاقت کے استعمال اور نسل کشی کے ارتکاب کے الزام میں وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں۔وہ ان الزامات کو مسترد کرچکے ہیں اور عدالت کے ساتھ کسی قسم سے تعاون سے انکار کرچکے ہیں۔
سوڈانی صدر کے ناقدین ان کی حکومت پر میڈیا،سول سوسائٹی اور حزب اختلاف کے خلاف کریک ڈاؤن کے الزامات بھی عاید کرتے رہتے ہیں اور وہ ان کے اس دعوے کو بھی مسترد کرتے ہیں کہ سوڈان کسی اور صدر کے آنے سے انتہا پسندوں کی آماج گاہ بن جائے گا۔
اکہتر سالہ عمر حسن البشیر نے انتخابی مہم کے دوران ملک میں سکیورٹی بہتر بنانے کے علاوہ پانی اور زرعی زمینوں تک رسائی بہتر بنانے کا بھی وعدہ کیا تھا۔سوڈان کی معیشت جنوبی سوڈان کے خودمختار ملک بننے کے بعد سے بہتر ہوئی ہے اور یہ تیل کی کم لاگت اور بھرپور فصلوں کا نتیجہ ہے۔تاہم ملک میں بے روزگاری اور افراط زر کی شرح بہت بلند ہے۔