لندن ۔انسانی جسم پر حکمرانی کرنے والے دماغ کے مقابلے میں عام طور پر لوگ دل کی زیادہ سنتے ہیں۔ لیکن، آج کی سائنس کہتی ہے کہ دل بچارا تو کچھ چاہنے یا نا چاہنیکی طاقت ہی نہیں رکھتا، بلکہ ہماری خواہشات کی باگ ڈور تو دماغ کے ساتھ بندھی ہوئی ہے، جو ہمیں اچھے برے کا فرق بتاتا ہے اور سچ اورجھوٹ کے بارے میں باخبر کرتا ہے۔
لندن سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں کی ٹیم بھی اسی نتیجے پر پہنچی ہے کہ ہمارا دماغ حقیقی ہنسی اور مصنوعی ہنسی کے فرق کو فوراً پہچان لیتا ہے اور ناصرف پہچان سکتا ہے بلکہ مصنوعی ہنسی سننے پر دماغ متجسس ہو جاتا ہے کہ اس فریبی ہنسی کے پیچھے کیا راز چھپا تھا۔ آیا، اس پر ہنسا گیا تھا یا پھر اس کے ساتھ ہنسا گیا تھا۔اگرچہ، دماغ حجم کے لحاظ سے انسانی جسم کا صرف ۲ فیصد ہے جو اپنی تمام سرگرمیاں مخصوص خلیات (نیوران) کے ذریعہ انجام دیتا ہے، اس کی معلومات یا سوچ اور خیالات کرنٹ کی صورت میں تار نما کھربوں نیورانز میں سفر کرتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتے ہیں۔سچی اور جھوٹی ہنسی سننے پر ہمارا دماغ
دو مختلف طرح کے ردعمل کا اظہار کرتا ہے۔
سائنس ڈیلی کے مضمون کے مطابق، سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ مصنوعی ہنسی کے مقابلے میں جب ہمارا دماغ حقیقی ہنسی سنتا ہیتو بالکل مختلف طریقہ کار اختیار کرتا ہے اور دو الگ طریقوں سے متحرک ہوتا ہے۔زبردستی کی ہنسی سننے پر وضاحت اور تجسس کے جذبات کے ساتھ منسلک دماغ کا ایک حصہ متحرک ہوتا ہے جس سے ہم سمجھ جاتیہیں کہ یہ ہنسی حقیقی نہیں تھی اور دماغ اس مصنوعی ہنسی کے معنی ڈھونڈنے لگ جاتا ہے کہ اس فریب کا مطلب کیا یو سکتا ہے اور وہ کیا سوچ رہے تھے۔جبکہ، سچی ہنسی خوشی اور مثبت جذبات سے منسلک دماغ کے ایک حصے کو روشن کرتی ہے۔’رائل ہالووے یونیورسٹی’ سے وابستہ ماہر نفسیات ڈاکٹر کیرولین میک گیٹیگن نے اس نظریہ کے تجزیہ کے لیے رضاکاروں کی دماغی کارکردگی کا اس وقت معائنہ کیا جب وہ مزاحیہ ویڈیوز دیکھ رہے تھے۔ تاہم، شرکا مطالعے کے مرکزی خیال سے ناواقف تھے جنھوں نے نادانستہ طور پر بتا دیا کہ کب انھوں نے ویڈیوز میں منافقانہ ہنسی سنی تھی۔محقیقین نے مصنوعی ہنسی سننے پر ہونے والے دماغی ردعمل کا موازنہ سچی ہنسی کے نتائج کے ساتھ کیا۔
ڈاکٹر نے کہا کہ، ’یہ خیال غور و فکر کرنے کے لیے خاصا دلچسپ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا دماغ دوسرے لوگوں میں حقیقی خوشی کو پہچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہمارا دماغ سماجی اور جذباتی قہقہوں کے حوالے سے بھی بہت زیادہ حساس ہے۔’
تجربے کے دوران شرکا نے جب ڈھونگی ہنسی سنی تو اس سے دوسرے شخص کی جذباتی اور ذہنی کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کے ساتھ منسلک دماغ کا ایک حصہ متحرک ہوا۔ڈاکٹر میک گیٹیگن نے کہا کہ ،”شرکاء میں سے کچھ کے دماغ کا وہ حصہ بھی متحرک ہوا جو نقل وحرکت اور احساس کو کنٹرول کرتا ہے۔ اور یہی شرکا انفرادی طور پر زیادہ بہتر طریقے سے بتا سکے کہ کون سی ہنسی چھوٹی تھی اور کونسی سچی’۔انھوں نے مشورہ دیا کہ ، ‘ایک سامع کی حیثیت سے نقلی ہنسی کو محسوس کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خود بھی مصنوعی انداز میں ہنسا جائے۔ اس طریقے سے مطلب کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔’گزشتہ برس کے ایک مطالعے میں بتایا گیا تھا کہ ہمارا دماغ ہنسی کی اقسام کے درمیان فرق کرنا جانتا ہے۔ اس کے باوجود دماغ کا وہ حصہ جو زیادہ پیچیدہ آوازوں کو منتخب کرنے اور اندراج کرنے کے حوالے سے زیادہ حساس تھا اس نے گدگدی کی ہنسی پر سب سے زیادہ ردعمل کا اظہار کیا۔