واقعے کے کئی گھنٹے بعد کیفے سے دو خواتین باہر نکلنے میں کامیاب ہوئی ہیں
آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ایک کیفے میں یرغمال بنائے جانے والے افراد میں سے پانچ باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے
ہیں جن میں سے دو بظاہر عملے کی ارکان ہیں۔
ایک مسلح شخص نے وسطی سڈنی کے مصروف کاروباری علاقے مارٹن پلیس میں پیر کی صبح لنٹ کیفے میں موجود متعدد افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔
اس واقعے کی اطلاع ملتے ہی سارے علاقے کو سینکڑوں پولیس اہلکاروں نےگھیرے میں لے لیا۔
سڈنی میں متعدد افراد یرغمال: تصاویر میں
نیو ساؤتھ ویلز پولیس کی نائب کمشنر کیتھرین برن نے پیر کی شام ایک پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ عمارت سے باہر نکلنے والے پانچ افراد کا طبی معائنہ کیا گیا ہے اور پولیس ان سے معلومات لے گی۔
انھوں نے کہا کہ وہ اب بھی یرغمالیوں کی صحیح تعداد تو نہیں بتا سکتیں لیکن ’یہ تعداد 30 نہیں ہے جیسا کہ کہا جا رہا ہے۔‘
کیتھرین برن کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ذرائع ابلاغ پر چلنے والی ان خبروں کی تصدیق نہیں کر سکتیں کہ اغوا کار نے شرائط پیش کی ہیں۔ ’ہمیں اس سے پولیس کے مذاکرات کاروں کے ذریعے بات چیت کر کے نمٹنا ہے۔ ہم قیاس آرائیوں میں نہیں پڑ سکتے۔‘
پولیس کے تفتیش کار مسلح شخص کے ارادوں کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں
اس سے قبل انھوں نے کہا تھا کہ پولیس واقعے کے پانچ گھنٹے بعد اغوا کار سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوئی۔
پولیس افسر کا کہنا تھا کہ پولیس کے تفتیش کار مسلح شخص کے ارادوں کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پولیس کے خیال میں تاحال کیفے میں موجود کسی شخص کو نقصان نہیں پہنچا ہے۔
آسٹریلوی ٹیلی وژن پر نشر کیے جانے والے مناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کم از کم تین افراد کھڑکیوں کے ساتھ ہاتھ فضا میں بلند کیے کھڑے ہیں اور وہاں ایک کالے رنگ کا پرچم بھی موجود ہے جس پر کلمہ تحریر ہے۔
واقعے کے کئی گھنٹے بعد کیفے سے دو خواتین باہر نکلنے میں کامیاب ہوئی ہیں جو بظاہر عملے کی ارکان لگ رہی ہیں۔
اس سے قبل تین دیگر افراد کو بھی لنٹ کیفے کی قریبی عمارت سے باہر نکلتے دیکھا گیا تھا۔
پولیس واقعے کے پانچ گھنٹے بعد اب اغوا کار سے رابطے میں ہے
سڈنی میں بی بی سی کے فل مرسر کے مطابق دو شیشے کے دروازوں سے باہر آئے جبکہ ایک شخص ہنگامی اخراج کے راستے سے نکلا۔
مارٹن پلیس کے سٹیشن کے علاوہ مذکورہ عمارت کے آس پاس واقع گلیاں بند کر دی گئی ہیں اور لوگوں کو وہاں سے باہر نکال دیا گیا ہے۔
نیو ساؤتھ ویلز کی پولیس نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ اس علاقے میں جانے سے گریز کریں اور آس پاس کے علاقے کے رہائشی کھڑکیوں کے قریب نہ جائیں۔
آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم ٹونی ایبٹ نے ملک کی قومی سلامتی کی کمیٹی سے ملاقات کی ہے اور ایک بیان میں اس صورتحال کو تشویش ناک قرار دیا ہے۔
سڈنی کے اس علاقے مارٹن پلیس کو سینکڑوں پولیس اہلکاروں نے گھیرے میں لے لیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ تاحال واضح نہیں کہ یہ کارروائی کرنے والے فرد کا مقصد کیا ہے لیکن تمام آسٹریلوی باشندوں کو اس بات پر یقین ہونا چاہیے کہ ملک کے قانون نافذ کرنے کے ادارے اور سکیورٹی ایجنسیاں تربیت یافتہ ہیں اور اس معاملے سے پیشہ وارانہ طور پر نمٹ رہی ہیں۔‘
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ایک شخص جو ایک بیگ اور بندوق سے مسلح تھا، لنٹ چاکلیٹ کی دکان اور کیفے میں پیر کی صبح داخل ہوا تھا۔
اس کے کچھ ہی دیر بعد کم از کم دو افراد جو بظاہر کیفے کے ملازمین لگ رہے تھے ایک کھڑکی کے پاس سیاہ جھنڈے کے ہمراہ دکھائی دیے۔
آسٹریلیا کی مشہور عمارت سڈنی کے اوپرا ہاؤس کو بھی خالی کروا لیا گیا ہے
سکیورٹی امور کے لیے بی بی سی کے نامہ نگار فرینک گارڈنر کا کہنا ہے کہ یہ پرچم شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے پرچم سے مماثلت رکھتا ہے لیکن بالکل ویسا نہیں جیسا کہ تنظیم استعمال کرتی ہے۔
سڈنی میں ہی انسدادِ دہشت گردی کی پولیس نے مشہور عمارت اوپرا ہاؤس کو بھی خالی کروا لیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ وہاں بھی ’ایک واقعہ‘ پیش آیا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق اوپرا ہاؤس سے ایک مشکوک پیکٹ برآمد ہوا ہے تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ واقعہ مارٹن پلیس والے واقعے سے منسلک ہے یا نہیں۔
آسٹریلیا میں گذشتہ چند ماہ کے دوران دہشت گردی کے خطرات میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے تانے بانے عراق اور شام میں سرگرم شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ سے ملتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق 70 آسٹریلوی شہری اس وقت تنظیم کے لیے مشرقِ وسطیٰ میں برسرپیکار ہیں جبکہ 20 کے قریب لڑائی میں حصہ لینے کے بعد واپس آ چکے ہیں۔
مذکورہ عمارت کے آس پاس واقع گلیاں بند کر دی گئی ہیں اور لوگوں کو وہاں سے باہر نکال دیا گیا ہے
ستمبر میں سڈنی اور برزبین میں آسٹریلوی تاریخ کی انسدادِ دہشت گردی کی سب سے بڑی کارروائی ان اطلاعات پر کی گئی تھی کہ کچھ لوگ آسٹریلوی سرزمین پر دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
اس معاملے میں ایک شخص پر دہشت گردی کے الزامات کے تحت فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔
اس کے بعد اکتوبر میں ملک میں انسدادِ دہشت گردی کا قانون منظور کیا گیا ہے جس پر انتہائی سخت ہونے کے حوالے سے تنقید بھی کی گئی ہے۔
پیر کی صبح بھی آسٹریلیا کی ایک عدالت نے دو افراد پر دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث ہونے کی فردِ جرم عائد کی ہے۔