دمشق ؛رپورٹ کے مطابق لبنان کی “العہد” نیوز ویب سائٹ نے لکھا ہے کہ دمشق کے نواح اور غوطۃالشرقیہ میں دہشت گردوں کے خلاف شام کی مسلح افواج کی کاروائیاں جاری ہیں اور افواج کا مقصد دارالحکومت کے گرد ایک سیکورٹی حلقہ تشکیل دینا ہے اور اس علاقے میں افواج کی روشوں اور حکمت عملیوں میں ـ جغرافیائی اور عسکری صورت حال کے پیش نظر ـ مسلسل تبدیلی لائی جارہی ہے۔
افواج نے کئی محاذوں پر تیز رفتار اور اچانک یلغار کی حکمت عملی سے استفادہ کیا ہے جس کی وجہ سے جبہۃالنصرہ کسی بھی محاذ میں اپنی توجہ حملے پر مرکوز کرنے سے عاجز آچکی ہے۔ علاوہ ازیں مسلح افواج علاقے کی قدرتی جغرافیائی محل وقوع اور دوہرے استعمال کے خفیہ مورچوں سے بھرپور استفادہ کررہی ہیں۔
دمشق کے نواح میں دمشق کے سیکورٹی حلقے کی تشکیل نواحی علاقوں میں بطور عام اور غوطہ کے علاقے میں بطور خاص جاری ہے، کاروائیاں جاری ہیں اور اہداف کے حصول کا کام ابھی مکمل نہيں ہوا ہے۔ شام کی مسلح افواج حالات کو تمام محاذوں میں اپنی مرضی سے بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور اپنی مرضی کو دشمن پر مسلط کرسکتی ہیں۔ افواج دیر سلیمان میں کامیابی کے بعد شبعا اور اس کے بعد حتیتہ ترکمان کی طرف گئیں اور اس وقت افواج کی کاروائیاں دوما، عربین اور حرستا میں جاری ہیں۔
العہد نے مزید لکھا: شام کی مسلح افواج تمام علاقوں میں ایک ہی روش سے استفادہ نہیں کرتیں اور ہر علاقے میں اس علاقے کے لئے مناسب روشوں کو بروئے کار لاتی ہیں اور مسلح دہشت گردوں کو غیرمتوقعہ اور ناگہانی حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فوجی ماہرین کے خیال میں شبعا میں دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لئے ایک ہفتہ وقت کی ضرورت تھی لیکن مسلح افواج نے اس علاقے کو صرف 48 گھنٹوں میں دہشت گردوں سے چھڑا لیا؛ حالانکہ اس علافے میں دہشت گرد ٹولوں کے بہت مضبوط مورچے تھے لیکن وہ افواج کے اعلی حوصلے کے مد مقابل مزاحمت نہ کرسکے۔
دہشت گردوں کے سرغنوں کو توقع تھی کہ مسلح افواج دیر سلیمان میں اپنی کاروائی مکمل کرنے کے بعد اسی علاقے میں البلالیہ اور النشابیہ کی طر حرکت کریں گی لیکن افواج نے اپنی روش بدل دی جس کو وجہ سے انہیں بہت بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا؛ افواج نے خفیہ طور پر بڑی نفری اور سازوسامان شبعا میں پہنچایا اور نہایت تیز رفتاری سے کاروائی کا آغاز کیا؛ یہ کاروائیوں تین جنوبی، مشرقی اور مغربی علاقوں سے شروع کی گئی اور سرکاری فورسز شبعا کو ایئرپورٹ روڈ سے متصل متصل کرنے والے چوتھے پل حملہ آور ہوئیں اور مغرب اور مشرق سے تیزی کے ساتھ شبعا میں داخل ہوئیں، تاہم شمالی محاذ پر کاروائی تاخیر سے مکمل ہوئی جبکہ اسی اثناء میں نواحی قصبوں کو دہشت گردوں سے چھڑانے کے لئے کاروائی ہوئی اور مجموعی طور پر یہ کاروائیاں دہشت گردوں کے نظم و ترتیب اور جنگی مرکزیت کی نابودی کا سبب ہوئیں کیونکہ انہیں معلوم نہ ہو پا رہا تھا کہ کس ٹھکانے سے پسپا ہوجائیں اور کہاں استقامت کریں جس کی وجہ سے انہیں بھاری جانی نقصان اٹھانے کے بعد دیر العصافیر اور حتیتہ ترکمان کی طرف پسپا ہونا پڑا۔
العہد کے نامہ نگار نے فوجی شام کے فوجی ذرائع کے حوالے سے ٹکھا ہے کہ شبعا میں دہشت گردوں کو ڈھونڈ نکالنے کے لئے گھر گھر تلاشی کے دوران ایک سرنگ ملی ہے جو ایک المیئے کا سبب بن سکتا تھا کیونکہ یہ سرنگ شہر سے نواحی پارکوں کے طویل فاصلے کو طے کرکے مشہور و معروف عوامی کمیٹیوں کے چیک پوسٹ سے بھی آگے تک پہنچائی گئی تھی اور اسکا مقصد یہ تھا کہ اس سرنگ کے ذریعے دہشت گردوں کو مذکورہ چیک پوسٹ کے پیچھے پہنچایا جائے، پوسٹ پر موجود عوامی فورسز کا قتل عام کیا جائے، حرم کی طرف جانے والے تمام راستے بند کئے جائیں، زینبیہ کا مکمل محاصرہ کرنا اور سیدہ زینب(س) کے حرم مطہر پر حملہ کرکے وہابی فتوؤں کے مطابق حرم کو تباہ کیا جائے اور زینبیہ کے عوام کا قتل عام کیا جائے۔
العہد نے شامی فوجی ذرائع کے حوالے سے شبعا میں سرکاری فورسز کی کامیابی کو بہت بڑي حصول یابی قرار دیا ہے کیونکہ دہشت گردوں نے اس شہر میں ناقابل تسخیر مورچے قائم کئے تھے اور یہاں دہشت گردوں کی خاص پوزیشن تھی۔