تنظیم ’یادگار حسینی‘ کے سرپرست و ارکان نے پریس کانفرنس میں اطلاع دی
۵ اپریل، ۴۱۰۲، لکھنو¿:
عالمی شہرت یافتہ اور برّے صغیر کے۰۲ویں صدی کے ممتازتریم عالم، دانشور اور محقق آیت اﷲسید علی نقی عرف نقّن صاحب بالمعروف سید العلماءکی رحلت کی ۵۲ ویں برسی کے موقع پر ۵۷سے بھی زائد برس پرانی تنظیم یادگار حسینی۶ سے ۸ اپریل کے درمیان ایک عظیم الشان بین الاقوامی سیمینار لکھنو¿ میں منعقد کرنے جا رہی ہے جس میں مختلف اسلامی ممالک سے تعلق رکھنے والے محققین اور ہندوستان کے اطراف سے تشریف لائے علماءو دانشور سید العلماءکی شخصیت اور ان کے کارناموں پر روشنی ڈالیں گے۔ یہ معلومات یادگار حسینی کی جانب سے منعقعد کردہ ایک پریس کانفرنس میں فراہم کی گئی جس کو یادگار حسینی کے سرپرست مولانا کلب جواد نقوی، ڈاکٹر علی محمد نقوی، ڈاکٹر کلب صادق اور پروفیسر کمال الدین اکبر نے خطاب کیا۔ اس موقع پر یادگار حسینی کے صدر حسن یوصف، سیکریٹری عزیز حیدر اور ارکان سینیئر صحافی حسین افسر، سید عرفان آغا، شاداب حسین وغیرہ بھی موجود تھے۔
یادگار حسینی سید العلماءکی ہی قائم کردہ تنظیم ہے جس کو ۵۷ سے بھی زائد برس پہلے سید العماءنے تشکیل کیا تھا تاکہ امام حسین کی شہادت کے ۰۰۳۱ سال اس طرح منائے جائیں کہ جس میں ہر قوم اور ہر مذہب کے لوگوں کو شریک کیا جائے ۔
سید العلماءسید علی نقی ۶۲ رجب ۳۲۳۱ ھ/۵۰۹۱ کو لکھنو¿ کے سب سے ممتاز علمی گھرانے میں متولد ہوئے۔ آپ کی ابتدائی تربیت والد نے کی۔ ۹ سال کی عمر تک عراق میں رہنے کے بعد آپ ہندوستان تشریف لائے اور یہاںکے دینی مدارس کی اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کرنے کے بعد دوبارہ عراق تشریف لے گئے جہاں آپ نے فقہ و اصول میں وہ ملکہ پیدا کیا کہ اس دور کے تین مجتہدین آیت اﷲاصفہانی، آیت اﷲ نائینی اور آیت اﷲ ضیائالدین عراقی نے آپ کے علم کا لوہا مانا۔ وہیں علم کلام اور دفاع مذہب میں آپ کی مہارت کا لوہا سید محسن امین عاملی، شیخ جواد بلاغی محمد حسین کاشف الغطاءاور سید عبد الحسین شرف الدین موسوی نے مان لیا۔ عربی شعر و ادب میں آپ کی مہارت ان فی البدیہ قصائد و مراثی میں دیکھی جا سکتی ہے جن پر آج بھی ادبی حلقوں میں ادب کے ساتھ چرچہ ہوتی ہے۔ عربی شعر و ادب میں آپ کے اقتدار کو شام و مصر و عراق کے علماءنے قبول کیا۔
سید العلماءکی عربی تصانیف کو عراق وایران کے مشہور اہل علم نے شاہکار قرار دیا ہے۔ ۰۵۳۱ ھ میں ہندوستان واپس آکر آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ غیر منقسم ہندوستان میںعوامی فکر کو عروج بخشنے اور دین حقیقی کی تعلیمات کو روشناس کرانے کی کوشش شروع کی۔ اردو میں آپ نے کئی سو کتابیں اور اس سے کہیں زیادہ کتابچہ تحریر کئے جو مختلف موضوعات پر اپنا جواب آپ ہیں۔ آپ کو تقریر میں خداداد قدرت حاصل تھی۔ اس دور کے تمام مقررین میں آپ افضل سمجھے جاتے تھے۔ سید العلماءکی خطابت کا ایک خاص رنگ تھا جو عبارت آرائی و سستی نکتہ آفرینی کے بجائے علم اور تحقیق پر مبنی تھا۔
۲۳۹۱ ءسے سن ۹۵۹۱ تک آپ لکھنو¿ یونیورسٹی کے شعبہ عربی سے وابستہ رہے اور اس کے بعد ۹۵۹۱ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ شیعہ دینیات سے وابستہ ہو گئے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی علی گڑھ میں ہی سکونت اختیار کئے رہے۔
رحلت کے بعد کے ۵۲ برسوں میں سید العلماءکی حیات اور کارناموں پر امریکہ اوربرطانیہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں ریسرچ ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ایران، عراق، پاکستان اور مصر میں آپ پر خاصہ کام ہوا ہے۔ ایران و عراق میں آج بھی کتنے علماءسید العماءکے اثاثے سنبھال کر رکھے ہیں۔
یادگار حسینی کا تعارف
۱۶۳۱ھ میں امام حسین کی شہادت کو ۰۰۳۱ سال پورے ہو رہے تھے۔ اس مناسبت سے دو، تین سال قبل سے سید العلماءنے ہندوستان کے گوشے کوشے میں یہ تحریک پھیلائی کہ ۱۶۳۱ ھ میں یادگار حسینی اس طرح منائی جائے کہ جس میں ہر قوم اور ہر مذہب کے لوگوں کو شریک کیا جائے۔ اس مقصد سے تنظیم یادگار حسینی کا قیام کیا گیا جس کے ممبر غیر منقسم ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے تھے۔ شہر شہر گاو¿ں گاو¿ں پروگرام مرتب کئے گئے تاکہ حسینی پیغام حریت کو پیش کیا جائے۔
ہر شہر میں بڑے بڑے جلسے منعقد کئے گئے۔ اس سلسلہ کا سب سے پہلا جلسہ قصبہ زیدپور ضلع بارہ بنکی میں منعقد کیا گیا، جس میں ملک سے کافی حضرات نے شرکت کی اور علماءکرام، دانشور، وکلاءحضرات نے اور ماتمی انجمنوں اوردیگر قومی تنظیموں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس جلسہ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں مختلف مذاہب کے لوگوں نے بھی حصہ لیا اور سید الشہدہ کی عظیم قربانی جو انھوں نے اﷲ کے دین اور پیغمبر خدا کی شریعت کے بچانے کے لئے پیش کی تھی ان کو بھر پور انداز میں پیش کیا۔ یہ جلسہ سید العلماءسید علی نقی کی صدارت میں ہوئے۔ ان جلسوں نے تحریک آزادی ہند کے لئے بڑے موئثر انداز میں کام کیا۔
یادگار حسینی کا ایک سب سے بڑا منصوبہ واقعہ کربلا پر ایک مبسوط کتاب شایع کرنا تھا جو غیر مسلم افراد کو کربلا کے اسباب اور اس کے مشن سے آگاہ کرے۔ اس کتاب کی تدوین کے لئے ایک ایڈیٹوریل بورڈ کی تشکیل کی گئی۔ لیکن غیر منقسم ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ممبران بورڈ کا اجتماع عملاµ غیر ممکن ثابت ہوا اس لئے یہ تجویز رکھی گئی کہ کتاب لکھ کر بورڈ کی میٹنگ میں استصواب کے لئے پیش کی جائے۔ ۴۶۳۱ھ (۵۴۹۱ ئ) میں اس کتاب کا مسودہ طبع کراکے بورڈ کے ممبران کے پاس بغرض استصواب بھیجا گیا۔ لیکن کچھ ایسے مسائل درپیش آئے کہ یہ کتاب شایع نہ ہو سکی۔ آج یہ کتاب منظر عام پر موجود ہے اور اردو (اور دوسری زبانوں میں جن میں اس کا ترجمہ ہوا ہے) واقعہ کربلا کے رونما ہونے کے اسباب و حالات اور اس کے پیغام پر سب سے موئثر اور واضح طور پر روشنی ڈالنے والی کتاب ہے۔سید العلماءنے کتاب شہید انسانیت کے علاوہ کربلا کے مقاصد کو سمجھانے اور عام کرنے کے لئے کئی دیگر کتابیں لکھیں۔ کربلا کے مقاصد کو واضح کرنے میں جو کام سید العلماءنے کیا ہے وہ تمام دیگر ہندوستانی مصنفین اور ذاکرین نے مل کر نہیں کیا۔
وہ کچھ افراد قلم جو یادگار حسینی کی پیغام کربلا کو نشر کرنے کی مہم میں شامل ہوئے اور جن کے نتائج قلمی اور دماغی کتاب ’شہید انسانیت‘ کی تالیف میں شریک ہوئے
مسٹر جان پونگ؛ سوامی شنکراچاریہ؛ ریورینڈ فادر پیلاشس (سابق پرنسپل، سینٹ ایکسویرس کالج، بمبئی)؛ ہز ہائنس ناصر الملک آف چترال؛ کارلائل؛ ہز ہائینس نواب صاحب خنجرہ؛ قائد اعظم مسٹر محمد علی جناح (صدر آل انڈیا مسلم لیگ، بمبئی)؛ خواجہ محمد لطیف صاحب انصاری (موگا کالج)؛ سر بہرام جی جی جی بھائی (بمبئی)؛ بابو راجندر پرشاد (سابق صدر آل انڈیا نیشنل کاگریس پٹنہ جو بعد میں بھارت کے صدر بنے)؛ پیشوائے اعظم فرقہ پارسی؛ مولانا اختر علی صاحب تلہری(شاہجہانپور)؛ ہز ہائنس محمد عثمان علی خاں نظام حیدرآباد دکن؛ مصور فطرت خواجہ حسن نظامی (درگاہ حضرت نظام الدین، دہلی)؛ ہز ہائنس مہاراجہ ہلکر آف اندور؛ مہاتمہ موہن داس کرمچند گاندھی؛ مسٹر براﺅن (مصنف تاریخ ادبیات ایران)؛ سر رادھا کرشنن (وائس چانسلر ہندو یونیورسٹی، بنارس، جو بعد میں ہندوستان کے صدر بنے)؛ سر فریڈرک جیمس گولڈ؛ مولانا شبلی نعمانی (مصنف سیرة النبی)؛ ڈاکٹر رادھا مکرجی (صدر شعبہ تاریخ، لکھنو¿ یونیورسٹی)؛ مسٹر بیجی کھیر(سابق وزیر اعظم، بمبئی)؛ مولانا محمد عبد الحامد صاحب بدایونی؛ مولانا سید آغا مہدی صاحب رضوی (لکھنو¿)؛ جسٹس سر شاہ محمد سلیمان؛ مہاتما شانتی پرکاش (صدر شری رام تیرتھ پبلیکیشن، لکھنو¿)؛ ہز ہائنس مہاراجہ جیواجی راو¿ سیندھیا آف گوالیار؛ سیکریٹری سید واڑہ حسینی بلگرام (مصنف حسین بیتی)؛ سید ارشاد حسین صاحب (رائے بریلی)؛ پروفیسر رکھوپتی سہائے فراق گورکھپوری (الہ آباد یونیورسٹی)؛ ڈاکٹر رابندر ناتھ ٹیگور (شانتی نکیتن)؛ ذاکر حسین صاحب فاروقی (بمبئی)؛ سید عابد حسین صاحب کھجوئی (ایڈیٹر مسلم ریویو، لکھنو¿/سیوان)؛ سید نواب علی صاحب سفیر سنڈیلوی؛ ڈاکٹر سر سید سلطان احمد (پٹنہ)؛ منشی پریم چند ورما؛ مسٹر کے ایل رلیا رام (لاہور)؛ نواب محمد ظہیرالدین خاں بہادر (حیدرآباد، دکن)؛ ڈاکٹر سو کمار بنرجی (لکھنو¿ یونیورسٹی)؛ سید مصور حسین صاحب نجم امروہوی)؛ پنڈت جواہر لال نہرو (سابق صدر آل انڈیا نیشنل کانگریس جو بعد میں ہندوستان کے وزیر اعظم ہوئے)؛ سید سبط محمد صاحب نقوی؛ مسز سروجنی نائیڈو(حیدرآباد، دکن)؛ ہز اکسیلنسی مہاراجہ سر کشن پرشاد (سابق دستور اعظم، حیدرآباد، دکن)؛ مسٹر سیایسرنگا ایر (سابق ایمایلاے سنٹرل مدراس)؛ مولانا سید مبارک علی صاحب عالم (آگرہ)؛ پنڈت برج ناتھ صاحب شرغا ایڈووکیٹ (لکھنو¿)؛ مولانا سید ابن حسن صاحب رضوی جارچوی (لکھنو¿)؛ مولانا ابوالکلام آزاد (صدر آل انڈیا نیشنل کانگریس)؛ سید خورشید حسین صاحب نقوی (کانپور)؛ سید احتشام حسین صاحب رضوی (لکھنو¿ یونیورسٹی)؛ آیت اﷲ سید محسن امین عاملی (مصنف اعیان الشیعہ، دمشق)؛ پنڈت بودھا شنکر (لکھنو¿)؛ سید غضنفر علی صاحب زیدی (مصنف دور استبداد)؛ سید ریاض علی صاحب ریاض بنارسی (مصنف شہید اعظم)؛ شاعر انقلاب شبیر حسن خاں جوش ملیح آبادی؛ مولانا سید ظفر حسن صاحب امروہوی(مرادآباد)؛ مولانا عینی شاہ صاحب نظامی (حیدرآباد، دکن)؛ سید مسعود حسن صاحب رضوی ادیب (صدر شعبہ فارسی و اردو لکھنو¿ یونیورسٹی)؛ مرزا محمد عسکری صاحب (لکھنو¿)؛ علامہ سید نہبتہ الدین شہرستانی (بغداد)؛ مولانا سید محمد سبطین صاحب سرسوی (سرپرست رسالہ البرہان لدھیانہ)؛ نواب سید محمد عباس صاحب طالب صفوی (شمس آباد)؛ سید کلب مصطفی صاحب (لکھنو¿)؛ مولانا سید مجتبیٰ حسن صاحب کامون پوری (ناظمیہ کالج لکھنو¿)؛ مولانا محمد نعمت امام صاحب پھلواڑی؛ پنڈت چندر پرشاد جگیاسو (لکھنو¿)؛ محمد صادق حسین صاحب علیگ (ہردوئی)؛ علامہ شیخ محمد حسین آل کاشف الغطا (نجف اشرف، عراق)؛ مولانا سبظ الحسن صاحب ہنسوی (لکھنو¿)؛ خواجہ غلام السیدین صاحب (ڈائریکٹر آف ایجوکیشن، کشمیر)؛ سید اشفاق حسین صاحب (بار ایٹ لا، سیتاپور)؛ ڈاکٹر محمد وحید مرزا صاحب (صدر شعبہ عربی، لکھنو¿ یونیورسٹی)؛ علامہ ہندی مولانا سید احمد صاحب (لکھنو¿)؛ سید محمد ہاشم صاحب (مصنف ناموس اسلام، پٹیالہ)؛ سید امتیاز حسین صاحب ترمذی (پٹنہ)؛ مرتب و مولف کتاب ’شہید انسانیت‘ ناظم ادارہ یادگار حسینی علی نقی انقوی (لکھنو¿)۔
سیمینار کے بارے میں
’سید العلماء: حیات اور کارنامے‘ کے عنوان سے منعقد ہونے ہونے والے اس تین روزہ سیمینار کا افتتاحی اجلاس ۶ اپریل بروز اطوار ڈیڑھ بجے دن سے شاہ نجف (نزد سہارا گنج، شاہ نجف روڈ، لکھنو)میں ہوگاجس میں ملک و بیرون ملک کی کئی نامور شخصیتیں سید العلماءکی حیات اور کارناموں پر روشنی ڈالیں گے۔ یہ اجلاس شام چھ بجے تک چلےگا۔ افتتاحی اجلاس کا دوسرا دور رات آٹھ بجے شروع ہوگا۔
۷ اپریل کوصبح ساڑھے نو بجے سے دن بھر مقالات کا دور رہے گا جو شام ۶ بجے تک چلے گا۔ ۷ اپریل کو رات ۸ بجے سے تقاریر کا ایک اور پروگرام رکھا گیا ہے۔۸ اپریل کو بھی صبح ساڑھے نو بجے سے دانشور اور محقق حضرات مقالات پڑھیں گے جو ۶ بجے شام تک جاری رہےگا۔ اس روز آٹھ بجے اختتامی اجلاس منعقد ہوگا جو گیارہ بجے تک چلےگا۔
سیمینار کی استقبالیہ کمیٹی میں جو حضرات موجود ہیں وہ درجہ ذیل ہیں: جناب علی طاہر رضوی، جناب نیر مسعود، جناب انیس اشفاق، پروفیسر فضل امام، جناب ممنون جعفری، جناب باقر ادیب، جناب احمد سجاد، جناب عباس نگار، جناب شاہد منظرعباس رضوی، جناب محمد زماں،جناب حسین افسر، جناب عالم نقوی، جناب عاصف رضا، جنام مرعابد، مولانا سید رضا حیدر، ڈاکٹر امانت حسین، مولانا سید تقی نقوی، مولانا اسیف جائسی، مولانا استفا رضا، جناب صادق حیدر زیدی، جناب عارف عباس، جناب شبیہ الحسن۔
مزید معلومات کے لئے ۲۹۴۲۷۷۵۶۵۹ پر رابطہ کریں۔ گزارش ہے کہ سیمینار کا تینوں دن کفریج کرائیں۔
Program:
Inaugural Session Part I: 6th April, 1.30 p.m. to 6.20 p.m.
Inaugural Session Part II: 6th April, 8 p.m. to 11 p.m.
Papers Session Part I: 7th April, 9.30 a.m. to 1.30 p.m.
Papers Session II: 7th April, 3 p.m. to 6.20 p.m.
Speech Session: 7th April, 8 p.m. to 11 p.m.
Papers Session Part III: 8th April, 9.30 a.m. to 1.30 p.m.
Papers Session Part IV: 8th April: 3.00 p.m. to 6.20 p.m.
Valedictory Session: 8th April: 8 p.m. to 11 p.m.