لاہور۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان کا کہنا ہے کہ نجم سیٹھی کو واضح طور پر بتا دیا گیا تھا کہ جس دن وہ آئی سی سی کے صدر بنیں گے اسی دن سے وہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں کوئی عہدہ نہیں رکھ سکیں گے اور انھیں گورننگ بورڈ کے رکن اور چیئرمین ایگزیکٹیو کمیٹی کے عہدے چھوڑنے پڑیں گے اور یہ بات نجم سیٹھی کو بھی اچھی طرح معلوم تھی۔واضح رہے کہ نجم سیٹھی نے گذشتہ دنوں آئی سی سی کی صدارت سے دستبردار ہو گئے تھے، جس کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان کی جگہ سابق ٹیسٹ کرکٹر ظہیر عباس کو اس عہدے کے لیے نامزد کر دیا ہے۔صحافی نجم سیٹھی نے آئی سی سی کا صدر بننے سے معذرت کر لی شہر یار خان نے انٹرویو میں کہا کہ آئی سی سی نے اگلے سال سے کسی سابق ٹیسٹ کرکٹر کو اپنا صدر بنانے کا فیصلہ نجم سیٹھی کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ یہ فیصلہ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے اس کے سابق صدر مصطفیٰ کمال کے ساتھ پیش آنے والے مسائل کے پیش نظر کیا جس کا اطلاق آئندہ سال سے ہونا ہے۔تاہم اس دوران نجم سیٹھی نے پاکستان کے کسی کرکٹر کو اس عہدے پر فائز دیکھنے کی خواہش کے پیش نظر خود اس عہدے سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا۔شہر یار خان نے کہا کہ وہ آئی سی سی کے بارباڈوس میں ہونے والے اجلاس کے لیے 12 منٹ دورانیے کی ایک ویڈیو لے کر جا رہے ہیں تاکہ آئی سی سی کے رکن ممالک کو اندازہ ہو سکے کہ پاکستان میں دہشت گردی میں کمی واقع ہو رہی ہے اور زمبابوے کے بعد دیگر ٹیمیں بھی یہاں آ سکتی ہیں۔انھوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ زمبابوے کے کرکٹروں کو ادائیگی کر کے پاکستان کرکٹ بورڈ نے دوسری ٹیموں کو بھی راہ دکھا دی ہے اور وہ بھی اب پاکستان کا دورہ کرنے کے لیے مالی مطالبات کر سکتے ہیں۔شہر یار خان نے کہا کہ چونکہ چھ سال کے طویل انتظار کے بعد پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہو رہی
تھی لہذٰا پاکستان کرکٹ بورڈ کو کچھ نہ کچھ مالی قربانی دینی تھی لیکن اس کے بدلے پاکستان کو صرف گیٹ منی کی مد میں کروڑوں کی آمدنی ہوئی اور صرف کرکٹ ہی نہیں دیگر پہلوؤں سے پاکستان کا امیج بحال ہوا۔’اس لحاظ سے اگر زمبابوے کے کرکٹروں کو جو کچھ دیا گیا اس کا دوگنا بھی دیا جاتا تو وہ جائز تھا لیکن آئندہ کسی دوسری ٹیم کو اس طرح ادائیگی نہیں کی جائے گی۔
‘شہر یار خان نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اپنے کسی آفیشل کو کرکٹ کمنٹری کی اجازت نہیں دیتا اور چیف سلیکٹر ہارون رشید کو حالیہ ٹی 20 ٹورنامنٹ میں مجبوراً کمنٹری کرنی پڑی تھی، لیکن یہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی غلطی تھی آئندہ ایسا ہرگز نہیں ہو گا کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا کوئی بھی تنخواہ دار آفیشل براڈکاسٹنگ نہیں کر سکتا۔