نئی دہلی:لذیز ذائقہ اور غذائیت سے بھرپور ہونے کی وجہ سے ملک میں سیپ کی بڑھتی مانگ کے پیش نظر سمندری ساحلی علاقوں میں سیپ پروری کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔
مصنوعی موتی کے لئے پہلے سے ہی ملک کے سمندری ساحلی علاقوں کے میٹھے اور کھارے پانی میں سیپ پروری کی جا رہی ہے لیکن حالیہ برسوں میں سیپ کے گوشت کی خاطر خصوصاً غیر ملکی سیاحوں کی بڑھتی دلچسپی کی وجہ سے سیپ کی کچھ قسموں کو پالنے پر خصوصی زور دیا جا رہا ہے ۔
ہندستانی زرعی تحقیق کونسل (آئی سی اے آر) کے مچھلیوں سے متعلق سائنس محکمہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل جے کے جینا نے بتایا کہ غیر ملکی بالخصوص یورپی سیاحوں کے درمیان سیپ کے گوشت کا بھاری مطالبہ ہے اور بڑے – بڑے ہوٹلوں میں اس کی فراہمی کی جاتی ہے ۔ ملک میں سیپ کے گوشت کی مانگ سالانہ 20 سے 25 ہزار ٹن تک پہنچ گئی ہے ۔
ڈاکٹر جینا نے بتایا کہ کئی قسموں کی سیپ پروری کو ساحلی ریاستوں میں فروغ دیا جا رہا ہے ۔ کیرالہ اور تمل ناڈو میں خاص طور پر ‘اوسٹر سیپ’ کی کھیتی کی جا رہی ہے اور اس کی کھیتی کے علاقوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ ڈاکٹر جینا نے بتایا کہ اسی طرح سے ‘مسل گرین سیپ’ کی کھیتی اڑیسہ، کیرالہ، تمل ناڈو، گجرات، مہاراشٹر اور کچھ دیگر ریاستوں میں کی جا رہی ہے ۔ اس کا گوشت بہت لذیز ہوتاہے اور غذائی عناصر بالخصوص پروٹین سے بھرپور ہوتا ہے ۔ کسانوں کو 400 روپے فی کلو گرام تک اس کی قیمت مل جاتی ہے ۔
ماہرین نے بتایا کہ مصنوعی موتی کے لئے بھی سیپ کی کھیتی کی جا رہی ہے لیکن اس کی ٹیکنالوجی کافی پیچیدہ ہے ، جس کی وجہ سے بہت زیادہ لوگوں کو اس میں مکمل طور پر کامیابی نہیں مل پاتی ہے ۔
ملک میں اب ایسی تکنیک تیار کر لی گئی ہے ، جس سے لوگ جس طرح کے سائز یا شکل کے موتی کی مانگ کریں، اسی سائز میں انہیں موتی دستیاب کرایا جا سکتا ہے ۔ مثال کے طور پر اوم یا بھگوان شری کرشن کی شکل کے موتی کی فرمائش کرنے پر انہیں ویسے ہی موتی دستیاب کرائے جاتے ہیں۔ اگرچہ اس طرح کے موتی کے لئے منہ مانگی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے ۔
ڈاکٹر جینا نے بتایا کہ کھارے اور میٹھے پانی میں سیپ پروری کی تربیت ‘سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف فریش واٹر ایکواکلچر (سی آئی ایف اے ) بھونیشور میں دی جاتی ہے ۔ اس ادارے میں ہر سال 30 لوگوں کو ہی 60 دنوں تک تربیت دی جاتی ہے جبکہ تربیت کے لئے 3000 سے زائد افراد درخواست دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے کسی بھی حصے میں سیپ پروری بہ آسانی کی جا سکتی ہے ۔ یہ کم لاگت میں اچھی آمدنی کا ذریعہ ہے اور حالیہ برسوں میں لوگوں میں سیپ پروری کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے ۔