ظفر آغا
عام آدمی کے صدر اروند کجریوال نے کل وارانسی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کے خلاف الیکشن لڑنے کا باقاعدہ اعلان کر کے ہندوستانی سیاست میں ایک لہر پیدا کردی۔ کجریوا ل کے اس اعلان کے بعد سیاسی حلقوں میں ایک لہر دوڑ گئی اور یہ چہ می گوئیاں شروع ہو گئیں کہ اب بنارس میں مودی کے لئے میدا ن اس قدر آسان نہیں رہا جیسا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی سوچ رہی تھی۔ کجریوال ہندوستانی سیاسی افق کے تازہ ترین ستارے ہیں ۔ یہ ان کا پہلا لوک سبھا چناﺅ ہوگا۔ اب سے محض تین ماہ قبل ان کی پارٹی ”عام آدمی“ نے دہلی اسمبلی کے چناﺅ میں پہلی بارلڑ کردہلی کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ کسی چند ماہ پرانی سیاسی جماعت نے اس طرح اقتدار حاصل کر ملک کو حیرت میں ڈال دیا تھا اور اس جیت کے بانی اروند کیجریوال ہی تھے جنہوں نے ایک قلیل مدت ہیں ہندوستان کے سیاسی افق پر اب اپنا ایک الگ مقام بنا لیا ہے۔
یہی کجریوال اب نریندرمودی جیسے اس وقت ملک کے سب سے طاقتور نظر آنے والے لیڈر مودی کے خلاف چناوی میدا ن میں کود چکے ہیں۔ اس طرح محض یہی نہیں کہ کجریوال نے مودی کے خلاف الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے بلکہ اس بات کے وسیع امکان ہیں کہ کجریوال سے مودی کو بنارس میں سخت مقابلہ ہو سکتا ہے۔ خبروں کے مطابق بنارس میں تین لاکھ سے زیادہ مسلم ووٹر ہیں۔ پھر اتر پردیش کے برہمن بھی اس بار بی جے پی سے زیادہ خوش نظر نہیں آراہے ہیں۔ بنارس میں اگر برہمن ووٹ کا ایک بڑا حصہ کجریوال کے ساتھ چلا گیا تو مودی کو پریشانی ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بنارس میں تقریباً ڈھائی لاکھ بنیا ووٹ ہے۔ اروند کجریوال بھی بنیا ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ ہر شہر کی طرح بنارس میں بھی ایک سیکولر ووٹ بینک ہوگا جو کجریوال کے ساتھ جا سکتا ہے لب لباب یہ کہ بنارس میں مودی کے خلاف کجریوال کا مقابلہ نہ صرف دلچسپ رہے گا بلکہ اس مقابلہ سے مودی کےلئے سخت مشکلیں پیدا ہوسکتی ہیں۔
لیکن اس کی کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی ہر جگہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہرا سکتی ہے۔ اس لوک سبھا چناﺅ میں سیکولر نظریہ ہی خطرے میں آگیا ہے۔ اس لئے ملک کے وہ تمام ووٹر جو سیکولر کی بقا میں دلچسپی رکھتے ہیں ا ن کو جذبات کی رو میں بہے بغیر ہر پارلیمانی حلقے میں بہت سمجھ بوجھ کر ووٹ ڈالنا ہوگا ۔ اگر بنارس میں کجریوال فرقہ پرستی کو ہر اسکتے تو ان کی حمایت کرنی چاہئے۔ لیکن اگر ان کی وجہ سے بنارس میں سیکولرووٹ بینک بٹ جائے تو ایسا ہونے سے روکنا چاہئے۔ بنارس حالیہ چناﺅ میں سیکولرزم اور فرقہ پرستی کے درمیان جنگ کا مرکز بن گیا ہے اس لئے بنارس میں اور اسی کے ساتھ ملک کے باقی تمام پارلیمانی حصوں میں بھی سیکولر طاقتوں کو اپنا ووٹ بانٹے بغیر فرقہ پرستی کو شکست دینی چاہئے ۔ حالیہ چناﺅ سیکولر طاقتوں کا امتحان ہے۔ اس چناﺅ میں سیکولر ووٹ کا بٹوارہ نہیں ہونا چاہئے متحد ہوکر فرقہ پرستی کو ہرانے میں ہی سیکولرزم اور ملک کی بقا ہے اس لئے بنارس ہو یا اور کوئی مقام جذبات میں بہے بغیر سیکولر طاقتوں کے خلاف متحد رہنے میں ہی عقلمندی ہے۔