انٹرنیٹ پر شائع کی گئی ایک ویڈیو میں جلتی گاڑیاں، لاشیں اور بکھرا ہوا سامان دیکھا جا سکتا ہے
شام سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق شام اور ترکی کی سرحد کے قریب ایک کار بم حملے میں کم از کم 43 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
شام کے شمالی صوبے حلب میں باب السلام کے قریب کرج ساجو کے علاقے میں یہ دھماکہ ایک گاڑی میں نصب بم کی مدد سے کیا گیا۔
برطانیہ میں بشار الاسد کی مخالف تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں پانچ خواتین اور تین بچے بھی شامل ہیں۔
انٹرنیٹ پر شائع کی گئی ایک ویڈیو میں جلتی گاڑیاں، لاشیں اور بکھرا ہوا سامان دیکھا جا سکتا ہے۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے سربراہ رامی عبد الرحمان نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ یہ دھماکہ اس مقام پر ہوا ہے جہاں سے سرحد پار کرنے والے مسافر گزرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب تک یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ یہ خودکش حملہ تھا یا نہیں۔
ترک صوبے کلس کے گورنر نے ریاستی خبر رساں ایجنسی آنادولو کو بتایا کہ 48 زخمی شامیوں کو سرحد پار کر کے ترکی میں علاج کے لیے لایا گیا تاہم بعد میں ان میں سے 11 ہلاک ہوگئے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق جہادی تنظیم دولتِ اسلامیہ فی عراق و الشام (آئی ایس آئی ایس) اس حملے کی ذمہ دار معلوم ہوتی ہے۔
باب السلام توحید بریگیڈ کے زیرِ انتظام ہے۔ توحید بریگیڈ اسلامک فرنٹ کا حصہ ہے جو آئی ایس آئی ایس کے ساتھ جنوری سے نبرد آزما ہے۔
“48 زخمی شامیوں کو سرحد پار کر کے ترکی میں علاج کے لیے لایا گیا تاہم بعد میں ان میں سے 11 ہلاک ہوگئے۔”
ترک صوبے کلس کے گورنر
شامی جہادی تنظیموں پر آپس میں لڑنے اور عام شہریوں کو ہراساں کرنے کے حوالے سے شدید تنقید کی جا چکی ہے۔
باب السلام کے علاقے میں اس سے پہلے بھی حملے کیے جا چکے ہیں۔ فروری میں ایک دھماکے میں چھ افراد ہلاک اور 45 زخمی ہوگئے تھے۔
یہ راستہ شام سے ترکی جانے والے پناہ گزینوں کا مرکزی راستہ ہے۔
مارچ 2011 سے شام میں حکومت مخالف مسلح تحریک چل رہی ہے جس میں حکومتی فوجوں سے لڑنے والوں میں مذہبی شدت پسند اور القاعدہ سے منسلک جہادی بھی شامل ہیں۔
تین سال سے شام میں جاری خانہ جنگی میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ شام میں 35 لاکھ افراد کو بنیادی صحت کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق ترکی میں 742000 شامی پناہ گزین موجود ہیں۔ ترک حکومت نے دس صوبوں میں 22 کیمپوں کی مدد سے ان میں سے 220000 کو پناہ دے رکھی ہے۔