دمشق : شام میں غذائی قلت کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہو چکی ہے اور خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے شہری ہر طرح کے پالتو جانوروں کو ذبح کرکے کھانے کے بعد اب گھاس پھوس کھانے پر مجبور ہو چکے ہیں.
گزشتہ کئی سالوں سے جنگ کے شکار ملک کے قصبے مدایا سے سامنے آنی والی رپورٹ کے مطابق یہاں چاول ‘گرام’ کے حساب سے فروخت ہوتے ہیں کیوںکہ ایک کلو گرام چاول کی قیمت 250 ڈالرز (تقریباََ 25 ہزار پاکستانی روپے) تک جا پہنچی ہے۔
لوگ بھوک مٹانے کے لیے پانی کے ساتھ پتے اور گھاس پھوس کھانے پر مجبور ہیں، بہت سے افراد نے تو اپنے پالتو جانوروں کو ہی ذبح کر کے کھا لیا ہے.
قصبے میں کام کرنے والے ایک سماجی کارکن لوئے نے برطانوی اخبار گارجین کو ٹیلی فون پر بتایا،” یہاں لوگ آہستہ آہستہ موت کے منہ میں جارہے ہیں”. لوئے کی آواز بھی کئی مہینوں کے فاقوں اور خوراک کی کمی کے باعث انتہائی نحیف تھی.
انھوں نے بتایا،” ہم نے گملوں میں کچھ پودے اگائے تھے، کل ہم نے پھولوں کی پتیاں توڑ کر کھائیں لیکن ان کا ذائقہ بہت تلخ تھا”.
انھوں نے فاقوں سے ہلاک ہونے والے کئی عمر رسیدہ مردوں کے لاغر جسموں کی تصاویر بھی بھیجیں، اگرچہ لوئے نے یہ تصاویر خود نہیں لیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ افراد علاقے میں کافی معروف تھے.
لوئے نے بتایا،” ہم کہتے تھے کہ کوئی بھی بھوک سے نہیں مر سکتا لیکن ہم نے حقیقت میں لوگوں کو بھوک کی وجہ سے مرتے ہوئے دیکھا ہے”.
مدایا میں کام کرنے والے دیگر سماجی کارکنوں نے بھی فاقہ زدہ بچوں کی تصاویر شیئر کی ہیں، ایک تصویر میں ایک بچے کو ایک چھوٹی گاڑی میں ڈال کر دھکیلا جا رہا ہے کیوں کہ کمزوری کے باعث وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہے.
مقامی افراد کے مطابق دیگر بچے جو اگرچہ خود چل پھر سکتے ہیں اور انھیں اس وقت اسکول میں ہونا چاہیے تھا، اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر قصبے کے اطراف میں بچھائی گئی بارودی سرنگوں کے اردگرد پودے جمع کرنے میں مصروف ہیں اور ان میں سے اکثر اپنی ٹانگوں سے بھی محروم ہوچکے ہیں.
اگرچہ شامی قصبے میں محصور ان افراد کے دعووں کی تصدیق ممکن نہیں، تاہم آزادانہ ذرائع کے مطابق یہاں خوراک، دواؤں اور بجلی کی کمی کا سامنا ہے.
شامی فوج میں سارجنٹ کی حیثیت سے کام کرنے والے ابراہیم عباس کے مطابق، “چاہے کوئی مرد ہو، عورت ہو یا بچہ اور چاہے کوئی 70 سال کا ہو یا 20 سال کا، لیکن ہر کسی کا تقریباً 15 کلو وزن کم ہوگیا ہے”۔
عباس کے مطابق یہاں آپ کو کوئی ایسا بچہ نہیں ملے گا، جس کی آنھیں آپ کو بھوک کی وجہ سے اندر کو دھنسی ہوئی نظر نہ آئیں۔
مدایا میں گذشتہ برس جولائی سے 30 ہزار سے زائد افراد پھنسے ہوئے ہیں، جہاں حکومت کی حامی فورسز نے محاصرہ کر رکھا ہے۔
مقامی افراد کے مطابق وہ ایک پیچیدہ پاور پلے کے دوران پس رہے ہیں اور ہزاروں میل دور موجود دو گاؤں میں حکومت مخالف فورسز کی کارروائیوں کی وجہ سے انھیں مشکلات جھیلنی پڑ رہی ہیں۔
گذشتہ برس بہار کے موسم میں جیش الفتح کے نام سے ایک باغی اتحاد نے شام کے شمال مغرب میں ایک بڑے علاقے پر قبضہ کرتے ہوئے ادلب صوبے کے دو علاقوں فوا اور کیفرایہ کا محاصرہ کرلیا تھا، جہاں کے رہائشی بھی اُس وقت سے محصور ہیں۔
جبکہ مدایا دمشق کے شمال مغرب میں تقریباً 25 کلومیٹر دور واقع ہے۔ گذشتہ جولائی سے شامی فوج اور اُس کی لبنانی اتحادی شیعہ تنظیم حزب اللہ نے اِس علاقے کا محاصرہ کر رکھا ہے۔
تاہم ایک سیز فائر معاہدے کے تحت دونوں فریقوں نے ان علاقوں سے زخمی افراد کو نکالنے اور امداد کی فراہمی کے لیے محفوظ راستے کے حوالے سے اتفاق کیا۔
مقامی افراد کے مطابق امدادی قافلوں کو مدایا، زبدانی، فوا اور کیفرایہ پہنچنے کی اجازت دی گئی لیکن امدادای سامان تھوڑے دن میں ہی ختم ہوجاتا ہے۔
سماجی کارکن لوئے نے بتایا، “میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں اور آپ میرا یقین نہیں کریں گے، میں نے آج کچھ کھانا خریدنے کی کوشش کی لیکن ایک کلو چاول کی قیمت ایک لاکھ (شامی) پاؤندز تھی۔”
اور بلیک مارکیٹ ایکس چینج ریٹ میں یہ 250 امریکی ڈالرز کے لگ بھگ ہوں گے۔
لوئے کے مطابق “میں نے ذاتی طور پر لوگوں کو بلیوں کو ذبح کرکے کھاتے ہوئے دیکھا ہے، حتیٰ کہ درخت بھی پتوں سے خالی ہوگئے ہیں”۔
انھوں نے مزید بتایا کہ لوگ اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ وہ بے ہوش ہوجاتے ہیں اور موسم سرما میں فاقوں کی صورتحال مزید بدتر ہوجائے گی۔
—بشکریہ گارجین