امریکا نے اس امر پر تشویش ظاہر کی ہے کہ شام کے غیر اعلانیہ کیمیائی ہتھیار اسلامی عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے لیے امریکی سفیر سامانتھا پاور نے اس تشویش کا اظہار اقوام متحدہ اور کیمیائی ہتھیاروں کے انسداد کے ادارے کے تحت بنائے گئے مشترکہ مشن سے بات کرتے ہوئے کیا ہے۔
یہ مشترکہ مشن شامی کیمائی ہتھیاروں کی تلفی کے لیے گزشتہ سال ستمبر میں تشکیل دیا گیا تھا۔ جو ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کے لیے سر گرم ہے۔
مشن سے توقع کی جا رہی ہے کہ یہ 30 ستمبر تک سگرید کاگ کی زیر قیات شامی کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی مکمل کر لے گا۔ تاہم شامی کیمیائی ہتھیاروں کی
تلفی کے بارے میں سوالات باقی ہیں۔
امریکی سفیر نے مشترکہ مشن سے بات کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا ” شام پر دباو جاری رکھا جائے تاکہ اس کے تمام تر کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی ممکن ہو جائے۔
” ان کا کہنا تھا ” امریکا شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی سے متعلق اٹھنے والے سوالوں کے حوالے سے تشویش کا شکار ہے، کیونکہ اس امر کا خدشہ موجود ہے کہ کیمیائی ہتھیار ایک مرتبہ پھر ایک چیلنج کا روپ دھار سکتے ہیں۔
سامنتھا پاور نے کہا ان دنوں سلامتی کونسل کی سربراہی امریکا کے پاس ہے اس لیے امریکا کی کوشش ہو گی کہ اس معاملے کو اولین ترجیح کے طور پر دیکھے۔
اقوام متحدہ کے لیے امریکی سفیر نے کہا ” اسلامی انتہا پسند گروپوں نے ہر کسی کو خوفزدہ کر رکھا ہے اور ان کا شام و عراق میں رابطہ ہے اس لیے خطرہ ہے کہ دونوں ملکوں کے باقی رہ جانے والے ہتھیاروں پر قابض ہو سکتے ہیں۔”
مشن کی سربراہ سگرید کاگ نے سلامتی کونسل کو اپنی آخری رپورٹ میں بتایا تھا کہ شام نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کے حوالے سے چار ترامیم کی تجویز پیش کی ہے۔ اس لیے اٹھنے والے سوالات پر تعمیری گفتگو کی ضرورت ہے۔
واضح رہے امریکا نے عراق میں اسلامی عسکریت پسند تنظیم داعش کے خلاف فضائی کارروائی شروع کر رکھی ہے جبکہ شام میں بھی اسی نوعیت کی کارروائی کے امکانات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔