یمن میں لڑائی خطے کی دو سپر پاورز کے درمیان ہونے والی لڑائی کی شکل اختیار کر گئی ہے
یمن میں بحران خطے کی دو سپر پاورز، ایران اور سعودی عرب، کے
درمیان تناؤ کی طرف ایک اشارہ ہے۔ بی بی سی کے مشرقِ وسطیٰ کے ایڈیٹر جیریمی بوون کہتے ہیں کہ یہ خطے میں بحران کی تازہ ترین مثال ہے جس سے خطہ مزید غیر مستحکم ہوتا جا رہا ہے۔
دنیا کی بڑی طاقتوں کی طرف سے شام کی لڑائی روکنے میں ناکامی چار برس پہلے کی نسبت اب اور بھی سنگین غلطی لگ رہی ہے۔
یہ صرف شام میں ہونے والی ہلاکتیں نہیں ہیں بلکہ دنیا کے اس حساس حصے پر ہونے والا جنگ کا اثر ہے۔
شام کی جنگ کا اثر اس تناؤ میں مزید شدت لا رہا ہے جو پہلے ہی یہاں موجود ہے۔
اس مصیبت زدہ علاقے میں وہ جگہ جہاں یہ تناؤ ابل کے پھٹنے والی حد پر پہنچ گیا ہے وہ یمن ہے۔
یمن کے اپنے بھی کئی مسائل ہیں۔ لیکن شام سے ابھرنے والے مسائل کے بغیر شاید یہ بین الاقوامی مسئلہ نہ بنتا۔
پہلے تو یہ ہوا کہ شام میں ہونے والی زیادہ تر ہلاکتیں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہوئیں۔
اس سے بہت سی جگہوں پر اکٹھے رہنے والے شیعہ اور سنی مسلمانوں نے ایک دوسرے پر شک کیا اور خون خرابہ بڑھا۔ اس طرح صورتِ حال کے بعد حال ہی میں شہ سرخیوں میں آنے والا ملک یمن ہے۔
حوثی
حوثی باغیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے اور سعودی عرب ان کی پیش قدمی روکنا چاہتا ہے
سنی سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ صدر ہادی کی حکومت کو بچانے کے لیے جو بھی بن پڑا کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ سنی سعودی عرب اور شیعہ ایران کے درمیان سرد جنگ بھی ان دو ممالک کو بڑی پراکسی جنگوں کی طرف دھکیل رہی ہے۔
یہ دونوں بڑی طاقتیں شام، عراق اور اب یمن میں مخالف پارٹیوں کی حمایت کرتی رہی ہیں۔
ایران اس بات پر اتراتا رہا ہے کہ اس کا اثر ان تینوں ممالک اور لبنان پر بھی ہے جہاں اب بڑا نازک اور متزلزل امن قائم ہے۔
اگر ایران کے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی معاہدہ ہو جاتا ہے تو اس پر سے پابندیاں اٹھا لی جائیں گی اور اس کی معیشت تیزی سے مضبوط ہو جائے گی۔
ایران کے متعلق ایک نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہمسائیوں پر حاوی ہونا نہیں بلکہ اپنا تحفظ چاہتا ہے۔ لیکن اگر سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سے اسے دیکھیں تو ایسا نہیں لگتا۔
سعودی عرب نئے بادشاہ اور کم ہوتی ہوئی تیل کی آمدنی کے باعث سمجھتا ہے کہ ایران اب توسیعی اور جارحانہ حالت میں ہے اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ امریکی زیادہ دیر اس کے ساتھ رہیں گے۔
شام کی جنگ کے بغیر بھی دونوں میں رقابت اور تصادم موجود تھا۔ لیکن شام نے نئے اور پرانے زخم کھول دیے ہیں۔ جن سے بہتا ہوا خون شیعہ سنی فالٹ لائن پر شام اور بحیرہ روم کے ساحل، عراق اور خلیج کے جنوبی سرے اور یمن اور بحیرۂ عرب سے ہوتا ہوا برصغیر پاک و ہند تک پہنچ چکا ہے۔