صدر پوٹین کا یہ درینہ موقف ہے کہ شام کے مسئلے کا حل صرف سیاسی طریقے سے نکل سکتا ہے
شام میں جاری جنگ میں اہم عالمی طاقتوں میں سے کچھ صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہی ہیں تو کچھ ان کی حکومت کے خلاف لڑنے والے جنگجوگروہوں کو امداد فراہم کر رہی ہیں۔
شام کے بحران پر اہم ممالک کیا موقف رکھتے؟
روس شامی صدر بشارالاسد کے سب سے اہم بین الاقوامی حامیوں میں سے ایک ہے اور صدر اسد کی حکومت کی بقا شام میں روسی مفادات کو برقرار رکھنےکے لیے اہم ہے۔
روس نے نہ صرف اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں شامی حکومت کے خلاف پیش کی جانے والے قراردادوں کو ویٹو کیا ہے بلکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے تنقید کے باوجود شام کو اسلحے کی فراہمی بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔
ماسکو شام کی بندرگاہ طرطوس میں موجود اپنے بحری اڈے کو کھونا نہیں چاہتا کیونکہ خطے میں یہ روس کا واحد بحری اڈہ ہے۔اس کے علاوہ لتاقیہ میں روس کا ایک فضائی اڈہ بھی ہے۔
روسی فضائیہ اگرچہ اس وقت شام میں داعش اور دیگر گروہوں کو نشانہ بنا رہی ہے لیکن صدر پوٹن کا یہ درینہ موقف ہے کہ شام کے مسئلے کا حل صرف سیاسی طریقے سے نکل سکتا ہے۔
روس کی شام میں فضائی کارروائی کس کے خلاف ہے؟
دولتِ اسلامیہ کے خلاف زمینی جنگ کے لیے 5 ہزار افراد کو تربیت اور اسلحہ فراہم کرنے کا امریکی منصوبہ بری طرح ناکام ہوگیا ہے
امریکہ
امریکہ صدر بشار الاسد پر شام میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف وزیوں کا الزام لگاتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ شام کے مسئلے کے حل کے لیے صدر اسد کی حکومت کا خاتمہ ضروری ہے۔
اگرچہ امریکہ کا بھی یہ موقف ہے کہ شامی بحران کا سیاسی حل ہی نکل سکتا ہے لیکن بحران کے آغاز سے ہی امریکہ ’اعتدال پسند‘ باغیوں کو فوجی امداد فراہم کر رہا ہے۔
گزشتہ برس ستمبر سے شام میں امریکہ اپنی اتحادیوں کے ساتھ مل کر دولتِ اسلامیہ اور دیگر شدت پسند گرہوں کے خلاف فضائی کارروائی بھی کر رہا ہے۔
لیکن امریکہ نے شدت پسندوں کو ان علاقوں میں نشانہ نہیں بنایا جہاں وہ صدر بشار الاسد کی افواج سے لڑ رہے ہیں۔
دولتِ اسلامیہ کے خلاف زمینی جنگ کے لیے 5 ہزار افراد کو تربیت اور اسلحہ فراہم کرنے کا امریکی منصوبہ بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔
شام میں لڑنے والے بہت سے گروہوں کو مالی اور فوجی امداد سعودی عرب ہی فراہم کر رہا ہے
سعودی عرب
سعودی عرب کا موقف ہے کہ صدر بشار الاسد شام کے بحران کے حل کا کسی بھی طور پر حصہ نہیں ہوسکتے اور فوراً شامی حکومت کا خاتمہ کر کے اقتدار عبوری حکومت کے حوالے کیا جائے۔
شام میں لڑنے والے بہت سے گروہوں کو جن میں شدت پسند گروہ بھی ہیں، مالی اور فوجی امداد سعودی عرب ہی فراہم کر رہا ہے۔
سعودی عرب کی خواہش ہے کہ امریکہ شام میں براہ راست فوجی کارروائی کرے لیکن امریکہ ایسا کرنے کو تیار نہیں ہے جس کی وجہ سے حالیہ برسوں میں دونوں اتحادیوں کے تعلقات سرد مہری کا شکار رہے ہیں۔
شام میں لڑنے والوں کے لیے امداد اور شدت پسند جہادی بھی ترکی کے راستے ہی ملک میں پہنچتے ہیں
ترکی
شام میں حکومت مخالف تحریک کے آغاز سے ہی ترکی بشارالاسد کی حکومت پر شدید تنقید کرتا آیا ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کا کہنا ہے کہ شامی عوام کے لیے ایک ایسے آمر کو برداشت کرنا ممکن نہیں جس کی وجہ سے تین لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہوں۔
ترکی شامی حزبِ اختلاف کا ایک اہم حامی ہے اور اس وقت تقریباً 20 لاکھ شامی پناہ گزین ترکی میں مقیم ہیں۔
شام میں لڑنے والوں کے لیے امداد اور شدت پسند جہادی بھی ترکی کے راستے ہی ملک میں پہنچتے ہیں۔
رواں برس دولتِ اسلامیہ کی جانب سے ترکی میں کیے جانے والے ایک بم حملے کے بعد ترکی نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شام میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف جاری فضائی کارروائی کے لیے اپنے اڈے استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔
ایران نے شامی بحران کے حل کےلیے کثیر جماعتی انتخابات کی تجویز پیش کی ہے
ایران
ایران خطے میں صدر اسد کا سب سے اہم اتحادی ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ شامی حکومت کو اربوں ڈالر کی امداد، اسلحہ اور تیل فراہم کر رہا ہے۔
بشار الاسد کا اب تک حکومت میں رہنا ایران کی حمایت کے باعث ہی ممکن ہوسکا ہے۔
شام ایران کا درینہ اتحادی ہے اور دہائیوں سے لبنانی عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کو ایران اسلحہ شام کے راستے ہی پہنچاتا آیا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ حزب اللہ کی جانب سے شامی افواج کی مدد کے لیے جنگجو بھیجنے کا فیصلہ بھی ایرانی حکومت کی درخواست پر کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ایران اور عراق سے بھی لوگ آکر شامی افواج کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں اور ان افراد کا موقف ہے کہ وہ مقدس ہستیوں کے مزارات کی حفاظت کے لیے لڑ رہے ہیں۔
ایران نے شامی بحران کے حل کےلیے کثیر جماعتی انتخابات کی تجویز پیش کی ہے۔