اقوام متحدہ، 5 نومبر:اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ شام میں 93 لاکھ لوگ یعنی 40 فیصد آبادی ملک میں ڈھائی سال سے جاری خانہ جنگی کی وجہ سے امداد کی محتاج ہوگئی ہے۔
عالمی ادارے کے امدادی دفتر کی ترجمان امندہ پٹ کے مطابق شام کے حالات بہت تیزی سے بگڑتے جارہے ہیں۔ امدادی ادارے کی سربراہ ولیری اموس نے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کو یہ بات بتائی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شام میں جو لوگ مدد کے مستحق ہیں ان کی تعداد بڑھ کر 93 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ ان میں سے 65 لاکھ وہ ہیں جو اپنے ملک کے اندر ہی خانما برباد ہوگئے ہیں۔
شام کی کل آبادی 2 اعشاریہ 3 کروڑ ہے۔
اموس نے کونسل پر دباؤ ڈالا کہ ان کی مدد کی جائے اور ان فریقوں پر اثر ڈالا جائے جو عام شہریوں اور شہری اداروں کے تحفظ کو یقینی بناسکتے ہیں تاکہ طبی امداد اور رسد کی سپلائی محفوظ طریقہ سے ہوسکے۔ لوگوں تک امدادی سامان پہنچ سکے اور لوگوں کی زندگیاں بچانے کا کام بلاک روک ٹوک کیا جاسکے۔
اموس کی اپیل کے بعد شامی حکومت نے کل وعدہ کیا ہے کہ وہ ملک بھر میں ٹیکے لگانے اور امدادی سامان پہنچانے کی اجازت دے گی کیونکہ شمال مغرب میں پولیو کی بیماری پھیل گئی ہے اور فوجی محاصرے والے علاقوں میں تغذیہ کی کمی کا خطرہ ہے۔
پچھلے ماہ عراقی سرحد سے متصل دیرا لزور صوبہ میں 22 بچے مفلوج ہوگئے ہیں۔ ان میں سے 10 بچوں میں پولیو کا وائرس پایا گیا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس بہت جلد پورے خطہ میں پھیل سکتا ہے۔
پچھلے ماہ اموس نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ شام میں امداد کی شدید ضرورت کے مدنظر سخت کارروائی کرے کیونکہ وہاں لاکھوں مستحق لوگوں کو ایک سال سے کوئی امداد نہیں ملی ہے۔
تشدد اور لال فیتا شاہی کی وجہ سے شام میں امداد بہت مشکل ہے اور بہت قلیل تعداد میں مستحق لوگوں تک پہنچ پاتی ہے۔ خانہ جنگی میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جاچکے ہیں اور لاکھوں جان بچاکر ملک سے بھاگ گئے ہیں۔