لکھنؤ(نامہ نگار)گرمی میں درجہ حرارت ۴۰ڈگری کے اوپر جا چکا ہے شدت کی گرمی میں اسپتالوں میں آنے والے مریضوںکے ساتھ تیمارداروںکی حالت بہت خراب ہے۔ کے جی ایم یو سے لے کر ضلع اسپتال تک تیماردار گرمی سے راحت تلاش کر رہے ہیں۔
کے جی ایم یو کے رین بسیروں میں لوگوں کے رہنے کی بات تو دور دن کے وقت بیٹھنے تک کا بندوبست نہیں ہے۔ گرمی سے پریشان
مریض مین گیٹ کے نزدیک اندر کی جانب درختوں کے سائے میںدن کاٹ رہے ہیں کئی تیماردار تو ان ہی درختوں کے نیچے رات بھی گزار لیتے ہیں۔ ان سب باتوں سے لاعلم کے جی ایم یو انتظامیہ نئے ایئر کنڈیشنڈ کا آرڈر دینے میں مصروف ہے۔
کنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی میں روزانہ تقریباً ۴ہزار سے زیادہ مریض آتے ہیں جس میں سے زیادہ تر کے ساتھ تیماردار ہوتے ہیں اور تیمارداروں کی زبردست بھیڑ دکھائی دیتی ہے۔ یہ بھیڑ اس وجہ سے نہیں کہ میڈیکل یونیورسٹی میں مریضوں کی آمد بڑھ گئی ہے ۔ کے جی ایم یو کے رین بسیروں میں اتنی جگہ نہیں کہ تیمارداروہاں بیٹھ سکیں۔ یہ تو ان تیمارداروں کی حالت ہے جو کہ کچھ گھنٹوں کے بعد کے جی ایم یو کیمپس سے چلے جاتے ہیں جبکہ جن کے مریض شعبوں میں بھرتی ہیں ان کی تو حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ جیسے جیسے گرمی میں اضافہ ہو رہا ہے تیمارداروں کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ ٹراما سینٹر سے لے کر پلاسٹک سرجری اور یورو لوجی تک تیمارداروں کو رین بسیرا کی سہولت نہیں مل رہی ہے۔ کے جی ایم یو میں انتظامیہ نے رین بسیرا کے نام پر ایک ٹین شیڈ ڈلوا دیا ہے اور پنکھا لگا کر اپنی ذمہ داری کو پورا کر دیا ہے۔ رین بسیرا کے نیچے بیٹھے تیماردار گرمی سے پریشان ہیں لیکن ان کے پاس کوئی راستہ بھی نہیں کہ وہ کس طرح راحت حاصل کر سکیں۔ کچھ تیماردار ہمت کر کے وارڈوں کے باہر شعبوں کے گلیاروں میں بیٹھ جاتے ہیں لیکن انہیں بھی سیکورٹی گارڈ کچھ وقت گزرتے ہی کھدیڑ دیتے ہیں ایسے میں تیمارداروں کے سامنے مسئلہ ہے کہ وہ جائیں تو آخرکہاں جائیں۔
دوسری جانب ایڈمنسٹریٹو افسر کہتے ہیں کہ رین بسیرے بنے ہوئے ہیں لیکن ان کی بھی ایک صلاحیت ہے اگر صلاحیت سے زیادہ تیماردار آجائیںگے تو سبھی کیلئے بیٹھنے کا انتظام کرنا مشکل ہوگا۔ حالانکہ کوئی بھی افسر اس سوال کا جواب نہیں دیتا کہ آخر رین بسیروں میں چھت اور دیوارکا معقول بندوبست کیوں نہیں کیاجاتا ہے۔رین بسیرے ٹین شیڈ کے نیچے ہی کیوں ہوتا ہے جہاں شدت کی گرمی سے بچنے کیلئے پنکھا ہی کیوں لگوایا جاتا ہے؟