سری نگر:حریت کانفرنس (گ) کے چیرمین سید علی گیلانی نے شراب کو تمام بدیوں اور برائیوں کی جڑ قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ مسلم اکثریتی جموں وکشمیر میں اسے فوج اور پولیس کی سرپرستی میں عام کیا جارہا ہے ۔ جموں وکشمیر میں شراب کی خرید و فروخت پر پابندی لگانے کے اپنے دیرینہ مطالبہ کو دہراتے ہوئے مسٹر گیلانی نے کہا ہے کہ پوری مسلم برادری کی ذمہ داریاں بنتی ہیں کہ وہ شراب پر پابندی لگانے کے لیے منظم اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح صف بند ہوجائیں۔ اسلامک اسٹیڈی سرکل کے ایک سمینار کی روداد کا حوالہ دیتے ہوئے مسٹر گیلانی نے کہا ہے کہ کشمیر میں روزانہ کی بنیاد پر 40ہزار شراب کی بوتلیں فروخت کی جاتی ہیں جبکہ 60 فیصد نوجوان نشے کی لت میں مبتلا ہیں۔ حریت چیرمین نے اِن باتوں کا اظہار عید الاضحی کے موقعہ پر تحریک حریت جموں وکشمیر جس کے وہ چیرمین ہیں، کی طرف سے شائع کردہ کتابچہ ‘عیدالاضحی 20015 ئ۔۔۔۔۔ کن حالات میں’ میں کیا ہے ۔ انہوں نے مذکورہ کتابچہ میں شراب اور منشیات کے مضر اثرات سے عوام کو آگاہ کرنے کے علاوہ گائے کے ذبیحے سمیت کئی دیگر معاملات پر اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے ۔ مسٹر گیلانی نے شراب پر پابندی لگانے کے اپنے مطالبے کو اُس وقت دہرایا جب بڑے جانوروں کے ذبیحے پر پابندی کی وجہ سے مسلم اکثریتی جموں وکشمیر میں پہلے ہی ایک بڑا تنازعہ پیدا ہوچکا ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دیگر حلقوں کی جانب سے بھی جموں وکشمیر میں شراب کی خرید و فروخت پر پابندی لگانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے ۔ 23 ستمبر کو کاروان اسلامی جموں وکشمیر نامی ایک معروف مذہبی جماعت نے ریاست میں شراب پر پابندی لگانے کیلئے قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی داخل کردی۔ جموں وکشمیر میں شراب پر پابندی عائد کئے جانے تک اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کاروان اسلامی نے کہا ہے کہ وہ شراب مخالفت مہم کو نہ صرف عوامی سطح پر جاری رکھے گی بلکہ قانونی طور پر بھی یہ جنگ جاری رکھے گی۔ جموں وکشمیر خاص طور پر وادی میں شراب کی خرید و فروخت پر پابندی لگانے کا مطالبہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ وادی کشمیر کی علیحدگی پسند اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے یہ مطالبہ عوامی جلسوں، دینی اجتماعات اور بیانات کے ذریعے بار بار دہرایا جاتا رہا ہے ۔ حریت کانفرنس کے اعتدال پسند گروپ کے چیرمین میرواعظ مولوی عمر فاروق کی طرف سے 17 ستمبر کو متحدہ مجلس علما جموں کشمیرکے صدر کی حیثیت سے بلائے گئے علماءکے اجلاس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ جموں وکشمیر جیسی مسلم اکثریتی ریاست میں شراب جیسی ام الخبائث پر مکمل پابندی عائد کی جائے ۔ وادی بھر میں صرف پانچ دکانوں پر شراب فروخت کی جاتی ہے جن میں سے ایک ہائی سیکورٹی زون بٹوارہ، تین شہرہ آفاق جھیل ڈل کو جانے والی سڑک بلیوارڈ روڑ اور ایک شہرہ آفاق سیاحتی مقام گلمرگ میں واقع ہے ۔
اِن دکانوں کو شراب فروخت کرنے کے لائسنس حاصل ہیں ۔ صرف پانچ دکانیں موجود رہنے کے باوجود وادی میں سالانہ لاکھوں کی تعداد میں شراب کی بوتلیں فروخت کی جاتی ہیں جس سے ریاستی حکومت کو کروڑوں روپے بطور ٹیکس حاصل ہوجاتے ہیں۔ حریت چیرمین مسٹر گیلانی نے کتابچہ میں لکھا ہے کہ ‘نیشنل کانفرنس اور کانگریس حکومت (جموں وکشمیر کی سابقہ حکومت) میں اعلاناً کہا گیا کہ شراب کے ٹیکس میں یہاں دس کروڑ کی آمدنی آتی ہے ۔ اب (پی ڈی پی اور بی جے پی کی حکومت میں) 20 کروڑ کی آمدنی آتی ہے ۔ گویا اس دورِ حکومت میں دوگنی تعداد میں شراب کی ترسیل اور استعمال ہوا ہے ’۔ شراب کے خلاف عوامی سطح پر مہم چلانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مسٹر گیلانی نے لکھا ہے کہ ‘شراب کا استعمال ہماری پوری نسل کی بربادی اور بے راہ روی کا موجب بن رہا ہے ۔ اس کے خلاف پوری مسلم برادری کی ذمہ داریاں بنتی ہیں کہ وہ شراب پر پابندی لگانے کے لیے منظم اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح صف بند ہوجائیں، کیونکہ اس اُم الخبائث نے ہماری نئی نسل کو سیرت و کردار کی نسبت سے موت کے گھاٹ اُتار دیا ہے ۔ تماشا دیکھنے والے بھی اللہ کی گرفت اور پکڑ سے محفوظ نہیں رہیں گے ’۔ شراب اور منشیات کی لت میں مبتلا مسلمانوں کو ٹوکتے ہوئے حریت چیرمین نے کہا ہے کہ ‘ایمانی قوت موجود ہوتی تو مسلمان شراب کے قریب نہ جاتے اور منشیات کے استعمال کا تصور بھی نہیں کیا جاتا۔
مدینہ پاک میں ابھی شراب حرام ہوجانے کے احکامات نازل نہیں ہوئے تھے کہ لوگ اس کا استعمال کرتے تھے ، جونہی شراب کو حرام قرار دیا گیا، اللہ اور رسول (ص) کے ارشادات کا اتنا احترام اور جذبہ اطاعت تھا کہ جن افراد نے شراب کے پیالے بھر کے ہاتھ میں لئے تھے انہوں نے اس حال میں شراب بھرے پیلاے زمین پر دے مارے ’۔ تاہم مسٹر گیلانی نے الزام عائد کیا ہے کہ مسلم اکثریتی جموں وکشمیر میں شراب کو فوج اور پولیس کی سرپرستی میں عام کیا جارہا ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے ‘فوج اور پولیس کی سرپرستی میں شراب اور منشیات کو عام کرنے کی لائسنس دی گئی ہے ۔ مسلمان نام کے لوگ شراب کے دُکان کھولتے ہیں اور مسلمان نام کے لوگ ہی شراب کی دکانوں پر بگ ٹٹ دوڑتے ہیں۔ یہاں بھارت کی فوجی بارکوں میں ہی نہیں رہتی ہے ، بلکہ عام بستیوں میں اُن کے کیمپ کھڑا کردیے گئے ہیں۔ ان کیمپوں کی وساطت سے گردوپیش کی آبادی میں بغیر کسی رکاوٹ کے شراب کی تقسیم اور ترسیل ہوتی ہے ’۔ اسلامک اسٹیڈی سرکل کے ایک سمینار کی روداد کا حوالہ دیتے ہوئے مسٹر گیلانی نے لکھا ہے کہ ‘اسلامک اسٹیڈی سرکل کے ایک سمینار میں بتایا گیا کہ صرف وادی میں روزانہ چالیس ہزار بوتلوں کی کھپ ہے ۔ 60 فیصد نوجوان نشے کی لت میں مبتلا ہیں۔ سمینار میں بتایا گیا کہ سری نگر اور سوپور میں 60 سے 70 فیصد تک لوگ جن میں جوانوں کی اکثریت ہے شراب اور منشیات کی بیماری میں مبتلا ہوگئے ہیں۔
یہ اعداد وشمار رونگٹے کھڑے کردینے والے ہیں، مگر لوگ مست و مدہوش ہیں اور اس وباءکی پھیلا¶ کے روک تھام کی کوشش اور حرکت نہیں کی جارہی ہے ۔ جموں کشمیر کی مسلم آبادی کے لیے یہ بہت بڑا المیہ اور بہت بڑا خطرناک مرحلہ ہے ۔ اس کی طرف اگر ہمہ گیر انداز میں توجہ مبذول نہیں کی گئی تو ذہنی ، عملی اور اخلاقی بربادی اور تاریک مستقبل ہمارا مقدر ہے ’۔ مسٹر گیلانی نے مذکورہ کتابچہ میں جموں وکشمیر کے نوجوانوں کو اللہ کا واسطہ دے کر شراب اور منشیات سے دور رہنے کی اپیل کی ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے ‘اللہ کا واسطہ دے کر میں اپنے لخت ہائے جگر بیٹوں اور بیٹیوں سے بچشم تر درخواست کرتا ہوں کہ شراب بدیوں اور برائیوں کی ماں ہے ۔ اس کے استعمال سے انسانی اور اخلاقی اقدار زمین بوس ہوجاتی ہیں۔ مسلمان نام کے کلمہ گو، تصورِ آخرت اجاگر کرکے اللہ کی طرف سے حرام کردہ اشیاءکا استعمال نہ کریں۔ نوجوان پود کو شراب اور منشیات کے استعمال سے دور رکھنے کیلئے والدین، علمائے کرام اور ائمہ مساجد کو اپنا کردار ادا کرنے کی تاکید کرتے ہوئے مسٹر گیلانی نے لکھا ہے ‘شراب اور منشیات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ اور وسیلہ یہ ہے کہ گھروں میں ماں، باپ اور باشعور افراد اس بارے میں اپنی منصبی ذمہ داریاں پوری کریں۔
گھروں میں لڑکوں اور لڑکیوں پر کڑی نگاہ رکھی جائے کہ شراب کی دکانیں اور منشیات کا کاروبار کرنے والوں سے اس طرح دور رہیں جیسے زہر ہلاہل سے جان کی قدر کرنے والے دُور رہتے ہیں۔ ہماری مساجد اور خانقاہوں کے سرپرست اور ائمہ حضرات اپنے سامعین کو شراب اور منشیات کی لعنت سے بچنے کی تلقین کرتے رہیں’۔ حریت چیرمین نے الزام عائد کیا ہے کہ وادی کشمیر میں انسانی اور اخلاقی اقدار کو پامال کرنے کیلئے شراب اور منشیات کو عام کردیا جارہا ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے ‘کسی قوم کی اخلاقی قوت اور طاقت کو پامال کرنے کے لیے خاص طور جوان پود، لڑکوں اور لڑکیوں کو شراب اور منشیات کا عادی بنایا جاتا ہے ۔ شراب اُم الخبائث ہے ۔ یعنی تمام بدیوں اور برائیوں کی جڑ شراب ہے ۔ یہ پینے والے کو بگاڑ دیتا ہے ۔ شراب کے نشے میں مدہوش ہوکر وہ تمام اخلاقی اقدار کو روند دیتا ہے اور جو کچھ اس کے سامنے آتا ہے درندوں کی طرح اُس پر جھپٹ پڑتا ہے ۔ اس لیے اللہ رب کائنات کی طرف سے اس کو حرام قرار دیا گیا ہے ’۔