عراق کے حالیہ بحران میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً 12 لاکھ عراقیوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں
شمالی عراق سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق جنگجوؤں نے ایک گاؤں میں کم از کم 80 يزیدیوں کو قتل کر دیا ہے اور خواتین و بچوں کو اغوا کر لیا ہے۔
جمعہ کی سہ پہر ریاستِ اسلامیہ مملکت کے جنگجو کوہِ سنجار سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع كوچو گاؤں میں داخل ہوئے اور مبینہ طور پر وہاں کے لوگوں سے کہا کہ اسلام لے آئیں یا مرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔
اس علاقے میں غیر سنی مسلمانوں کے خلاف اجتماعی ظلم نے بین الاقوامی برادری کو متح
رک کر دیا ہے۔
نیو یارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ریاستِ اسلامیہ کے ارکان پر پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے۔
ایک اور پیش رفت میں امریکی فوج نے کہا کہ جمعے کی صبح اس نے کوہِ سنجار کے قریب ریاستِ اسلامیہ کی دو گاڑیوں کو نشاندہی کے بعد ڈرون حملے سے انھیں تباہ کر دیا ہے۔
انھوں نے یہ کارروائی کرد فوج سے موصول ہونے والی اطلاعات کے بعد کی ہے۔
واشنگٹن میں مقیم یزیدی رضاکار کی اطلاعات کے بعد کرد حکام نے بھی کوچو پر حملے کی تصدیق کی ہے۔
کوچو گاؤں کے حوالے سے سینيئر کرد رہنما ہوشیار زیباری نے خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’وہ گاڑیوں میں آئے اور انھوں نے سہ پہر کو قتل کرنا شروع کر دیا۔‘
برسلز میں یورپی یونین کے ہنگامی اجلاس میں 28 رکن ممالک کو ذاتی طور پر یہ فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے کہ آیا وہ شمالی عراق میں ریاستِ اسلامیہ کے خلاف کرد فورسز کو مسلح کرنا چاہتے ہیں یا نہیں
اس گاؤں کے نواحی گاؤں کے ایک مقامی نے کہا ریاستِ اسلامیہ کے ایک جنگجو نے انھیں قتل عام کی تفصیل بتائی تھی۔
ان کے مطابق ’انھوں نے مجھ سے کہا کہ ریاستِ اسلامیہ والے پانچ دنوں تک گاؤں والوں کو اسلام قبول کرنے کے لیے راضی کرتے رہے اور اس بارے میں آج ایک لمبی تقریر ہوئی۔
’اس کے بعد اس نے کہا کہ متعدد لوگوں کو یکجا کیا گیا اور گولی مار دی گئی۔‘
امریکہ میں مقیم یزیدی رضاکار ہادی پیر کے مطابق گاؤں والوں کو ایک ڈیڈ لائن دی گئی تھی۔
ان کے مطابق گاؤں والوں کو وہاں کے واحد سکول میں جمع کیا گیا تھا۔ مردوں کو گولی مارنے کے بعد باقی لوگوں کو بس میں بیٹھا کر نامعلوم مقام کے لے جایا گيا ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ جمعے کی صبح اس نے کوہِ سنجار کے قریب ریاستِ اسلامیہ کی دو گاڑیوں کو ڈرون کے ذریعے نشانہ بنایا
عراق کی سنی اقلیت کے بعض رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ ریاستِ اسلامیہ کے خلاف عراق کے نئے وزیر اعظم حیدرالعبادی کے ساتھ تعاون کریں گے جنھیں امن و امان بحال کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں ریاستِ اسلامیہ اور شام کے النصرہ فرنٹ سے منسلک چھ افراد کے بین الاقوامی سفر پر پابندی لگادی گئی ہے، ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے اور ان پر اسلحہ کی فراہمی کی پابندی لگادی گئی ہے۔
جمعے کو ہی برسلز میں یورپی یونین کے ہنگامی اجلاس میں 28 رکن ممالک کو ذاتی طور پر یہ فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے کہ آیا وہ شمالی عراق میں ریاستِ اسلامیہ کے خلاف کرد فورسز کو مسلح کرنا چاہتے ہیں یا نہیں کیونکہ شمال میں کرد ہی ریاستِ اسلامیہ کے اہم مخالف ہیں۔