متعدد ہلاک شدگان کی اجتماعی نمازِ جنازہ سنیچر کی صبح لکھی در میں ادا کی گئی
پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر شکار پور کی ایک امام بارگاہ میں خودکش دھماکے سے 61 افراد کی ہلاکت پر سنیچر کو صوبے ب
ھر میں سوگ منایا جا رہا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق یہ ایک خودکش حملہ تھا اور پولیس نے اس واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
شکار پور پولیس کے اعلیْ حکام نے مقامی ایس ایچ او سمیت دو پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا ہے جبکہ امام بارگاہ کی سکیورٹی پر مامور ایک اہلکار کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔
شکارپور دھماکے کے بعد: تصاویر
اندرونِ سندھ میں بڑھتی شدت پسندی
شکارپور کے علاقے لکھی در میں جمعے کی دوپہر کربلائے معلی نامی امام بارگاہ میں ایک دھماکہ ہوا تھا جس میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد مارے گئے تھے۔
صوبہ سندھ میں اس سانحے پر سرکاری سطح پر ایک دن کا سوگ منایا جا رہا ہے اور وزیرِ اعلیٰ نے ہلاک شدگان لواحقین کے لیے 20، 20 لاکھ روپے اور زخمیوں کے لیے دو، دو لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا ہے۔
سنیچر کو ہلاک شدگان کی نمازِ جنارہ کی ادائیگی کا سلسلہ جاری ہے اور شکار پور سمیت اندونِ سندھ کے کئی شہروں میں کاروبارِ زندگی معطل ہے۔
اس واقعے کے خلاف شیعہ تنظیموں کی کال پر صوبے میں ہڑتال کی جا رہی ہے اور کراچی سمیت سندھ میں وکلا نے بھی عدالتی سرگرمیوں کا بائیکاٹ کیا ہے۔
حکومتِ سندھ نے اس واقعے پر سنیچر کو صوبے میں ایک دن کا سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔
دھماکے کے خلاف کراچی سمیت متعدد شہروں میں احتجاج ہوا ہے
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے سنیچر کو شکار پور کا دورہ کیا ہے اور وہ ہلاک شدگان کی نمازِ جنارہ میں بھی شرکت کریں گے۔
شیعہ تنظیم مجلسِ وحدت المسلمین کے مطابق اجتماعی نمازِ جنازہ سنیچر کی صبح لکھی در میں ادا کی گئی ہے۔
وزیرِ اعلیٰ نے پولیس حکام کو یہ ہدایت بھی کی ہے کہ صوبے میں ہائی الرٹ کیا جائے کیونکہ شہروں میں گھیرا تنگ ہونے کے بعد دہشت گردوں نے چھوٹے شہروں اور قصبوں کا رخ کیا ہے۔
کمشنر سکھر سعید احمد کا کہنا ہے کہ اس دھماکے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق یہ ایک خودکش حملہ تھا جس میں 58 افراد ہلاک ہوئے۔
بی بی سی کے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق انھوں نے بتایا کہ خودکش حملہ آور ایک خاتون کے ہمراہ امام بارگاہ میں یہ کہہ کر داخل ہوا کہ وہ دم درود کے لیے آیا ہے اور پھر اس نے دھماکہ کر دیا۔
سعید احمد کے مطابق سپیشل برانچ کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حملے میں پانچ کلو کے قریب دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔
دھماکے سے قبل پولیس کے جائے وقوع پر موجود نہ ہونے کی تحقیقات جاری ہیں اور شکار پور کے ایس ایس پی نے ایس ایچ او لکھی در اور ہیڈ محرر کو معطل کر دیا ہے جبکہ اس پولیس اہلکار کو حراست میں لے لیا گیا ہے جس کی ڈیوٹی جمعے کو امام بارگاہ پر تھی۔
نمازِ جنارہ میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے
یہ دھماکہ جمعے کو شکار پور کے علاقے لکھی در کی امام بارگاہ مولا علی میں نمازِ جمعہ کے موقع پر ہوا تھا۔
جمعے کی شب شکارپور کی پولیس کی جانب سے اس واقعے میں تین بچوں سمیت 57 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی تھی تاہم سنیچر کی صبح پی ٹی وی نے طبی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ مزید چار افرد ہلاک ہوئے ہیں۔
اس دھماکے میں 59 افراد زخمی بھی ہوئے تھے جن میں سے متعدد کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ یہ زخمی شکارپور، سکھر اور لاڑکانہ میں داخل ہیں۔
بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق دھماکے میں شدید زخمی ہونے والے 16 افراد کو سی 130 طیارے کے ذریعے کراچی لایا گیا ہے جہاں وہ مختلف ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔
ہلاکتوں کے خلاف ہڑتال
شیعہ تنظیم مجلس وحدت مسلمین نے شکار پور دھماکے کے بعد تین روزہ سوگ کا اعلان بھی کیا ہے جبکہ اس تنظیم کے علاوہ شیعہ علما کونسل کی اپیل پر سنیچر کو صوبے بھر میں ہڑتال کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ کراچی میں نمائش چورنگی، ملیر اور ابوالحسن اصفہانی روڈ پر جمعے کی شب سے ہی احتجاجی دھرنے جاری ہیں۔
دھماکے میں شدید زخمی ہونے والے 16 افراد کو سی 130 طیارے کے ذریعے کراچی لایا گیا ہے
ہڑتال اور دھرنوں کی وجہ سے کراچی میں نظام زندگی متاثر ہوا ہے۔
کراچی کے علاوہ لاڑکانہ، حیدرآباد سمیت سندھ کی دیگر شہروں میں بھی سنیچر کو احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں۔
مجلسِ وحدتِ مسلمین کا بھی کہنا ہے کہ ہلاک شدگان کی تعداد 60 سے زیادہ ہے کیونکہ کچھ لاشیں ورثا اپنے علاقوں میں بھی لے گئے ہیں۔
جماعت کے مرکزی رہنما امین شہیدی کا کہنا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت دہشت گردی روکنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
خیال رہے کہ شکار پور میں ماضی میں بھی فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں اور جنوری 2013 میں ہی شہر سے دس کلومیٹر دور واقع درگاہ غازی شاہ میں بم دھماکے میں گدی نشین سمیت چار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
2010 میں بھی شکار پور میں عاشورۂ محرم کے موقع پر ایک مجلس پر حملے کی کوشش کے دوران ایک مشتبہ خودکش بمبار مارا گیا تھا۔
عالمی مذمت
شکار پور میں ہونے والے دھماکے کی عالمی سطح پر بھی مذمت کی گئی ہے۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق یورپی یونین نے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے اور ہر قسم کی پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے پاکستان سے مزید تعاون کرنے کو تیار ہے۔