سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وہ میل کچیل جو شہری علاقوں میں چیزوں کی تہوں پر جم جاتا ہے، وہ سورج کی روشنی پڑنے کے بعد نائٹروجن گیس خارج کرتا ہے۔پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ میل گیسیں جذب کرتا ہے، لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ اس میں سے نائٹروجن خارج ہوتی ہے۔
جرمنی میں کیے گئے تجربات میں تحقیق کاروں نے میل کچیل کا دھوپ اور سائے میں جائزہ لیا۔انھوں نے بتایا کہ دھوپ میں میل کچیل نائٹروجن دو طرح سے خارج کرتا ہے: ’گندی اور زہریلی نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ (NO2)، اور نائٹرس ایسڈ (HONO) جو شہری آبادی پر چھانے والی دھند اور دھواں پیدا کرنے کا اہم جزو ہے۔‘
یہ تحقیق امریکی کیمیکل سوسائٹی کے بوسٹن میں ہونے والے اجلاس میں پیش کی گئی، جس کا ماہرینِ آلودگی نے خیرمقدم کیا۔ اس تحقیق سے لندن کے آسمان پر پائی جانے والی دھند اور دھویں کے ایک اہم جزو کی نشاندہی میں مدد مل سکتی ہے۔
ڈاکٹر جیمز ڈونلڈ سن کینیڈا کی ٹورنٹو یونیورسٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر اور اس تحقیق کی نمائندگی کرنے والے ڈاکٹر جیمز ڈونلڈ سن کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ نائٹروجن میل کچیل میں مکمل طور پر جذب نہیں ہوتی بلکہ سورج کی روشنی ان میں سے کچھ گیسوں کو واپس شہری ماحول میں شامل کر دیتی ہے۔‘پروفیسر ڈونلڈز کے گذشتہ تجربات سے یہ بات پہلے ہی سامنے آ چکی ہے کہ سورج کی مصنوعی روشنی میل کچیل سے نائٹروجن کو خارج کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔جرمنی میں کیے گئے تازہ کام میں انھوں نے اپنے تجربات شہر سے باہر منتقل کر دیے۔انھوں نے شہر کے اوپر ایک مینار پر دو شیشے کی چھوٹی چھوٹی گولیوں سے بھرے دو بڑے شیلف چھ ہفتے رکھے، جن میں سے ایک ڈھکا ہوا اور ایک اوپر سے کھلا تھا۔پروفیسر ڈونلڈسن نے پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ ’تجربات کے دوران یہ ظاہر ہوا کہ جو شیلف دھوپ میں تھا، اس میں نائٹریٹ کی مقدار سائے والے شیلف کے مقابلے میں دس فیصد کم تھی۔‘
یہ دس فیصد کی کمی بظاہر معمولی لگتی ہے، لیکن یہ مستقل فرق ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سورج کی روشنی میل کچیل کے اندر موجود نائٹروجن کو نکال باہر کرتی ہے، جب کہ اس دوران تازہ نائٹروجن اس مواد میں شامل ہوتی رہتی ہے۔تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ نائٹروجن شہر کی فضا میں اکٹھی ہوتی رہتی ہے۔برطانیہ میں ماحولیاتی تنظیم کلین ایئر اِن لندن کے کارکن سائمن برکٹ نے اس مطالعے کو ’انتہائی قابلِ قدر تحقیق‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے لندن میں میل کچیل کی بہت بڑی مقدار جمع ہوتی ہے جو ممکنہ طور پر آلودگی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔‘انھوں نے ایسی تحقیق کی ضرورت پر زور دیا جس سے معلوم ہو سکے کہ کتنی مضر گیسیں فضا میں شامل ہو رہی ہیں اور ان کے صحت پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔