داؤداوغلو نے شام میں جبروظلم کو روکنے کے لیے ’سخت فیصلے‘ نہ لینے پر اقوام متحدہ کے پانچ مستقل اراکین کو تنقید کا نشانہ بنایا
ترکی کے وزیر اعظم نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ دولت اسلامیہ اور شامی فوجیوں سے بچ کر بھاگنے والے شہریوں کے تحفظ کے لیے ترکی ایک بار پھر سے شمالی شام میں نو فلائی زون کے قیام کی کوشش کرے گا۔
احمد داؤد اوغلو نے کہا کہ شام کی جنگ میں بے گھر ہونے والے افراد کے لیے وہ امریکہ کے ساتھ مل کر ’محفوظ علاقے‘ کے قیام کے لیے کام کریں گے۔
جبکہ واشنگٹن نے ترکی کے امریکہ کے ساتھ مل کر شام میں ’سیف زون‘ کے قیام کے منصوبے پر سوال اٹھایا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان (مارک ٹونر) نے کہا کہ امریکہ کے تعاون کا مرکز دولت اسلامیہ کو اس علاقے سے نکالنے کی مسلسل کوشش پر ہے۔
علاقے میں تحفظ فراہم کرنے کے لیے ترکی نے فوج بھیجنے سے انکار بھی نہیں کیا تاہم انھوں نے نام نہاد دولت اسلامیہ اور دوسرے شدت پسند گروپس کی امداد سے انکار کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق ترکی میں 18 لاکھ شامی پناہ گزین ہیں
انھوں بی بی سی کے ساتھ بات چیت کے دوران بین الاقوامی برادری پر شام میں چار سال سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے مزید کوششوں کی اپیل کی۔
داؤداوغلو نے شام میں جبروظلم کو روکنے کے لیے ’سخت فیصلے‘ نہ لینے پر اقوام متحدہ کے پانچ مستقل اراکین کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
انھوں نے براستہ ترکی یورپ جانے والے تارکین وطن پر ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’یہ بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ شام میں چار سال سے جاری جنگ کو ختم کرکے تارکین وطن کے بہاؤ پر قابو پائیں۔‘
انھوں نے شام میں اعتدال پسندوں کو مضبوط کرنے کو ترجیح دی۔ انھوں نے کہا: ’اگر شام میں اعتدال پسندوں کے پاس زیادہ قوت ہوگی تو ترکی سمیت دوسرے کسی ملک کو وہاں زمینی فوج بھیجنے کی ضرورت نہیں ہوگي۔‘
ترکی کرد علیحدگی پسند گروپ پی کے کے کو دہشت گرد قرار دیتا ہے
خیال رہے کہ مخالفین ترکی حکومت پر کرد علیحدگی پسند گروپ پی کے کے کے خلاف دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کو استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہیں جبکہ ترکی اس کی تردید کرتا ہے۔
وزیراعظم داؤد اوغلو نے کردوں کے خلاف ترکی کی جنگ سے انکار کیا اور کہا کہ ان کا ملک دہشت گرد گروپ کا جواب دے رہا ہے۔
انھوں نے کہا: ’اگر القاعدہ برطانیہ پر حملہ کرتا ہے تو آپ اسے القاعدہ اور برطانیہ کے جنگ نہیں کہیں بلکہ اسے دہشت گردانہ حملہ کہیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’کوئی بھی حکومت خواہ وہ یورپی ہو یا امریکی جمہوری حکومتیں وہ کسی ایسے گروپ کو برداشت نہیں کر سکتیں جو لوگوں کو ایک جائز حکومت کے خلاف لوگوں کو بغاوت کی دعوت دے۔‘