ہردوئی 23 جنوری ( یو این آئی) مغل شہنشاہ اکبر کی تقریباً ساڑھے چار سو سال پرانی تاریخی مسجد اپنے ماضی کو زندہ رکھتے ہوئے مغلیہ دور کی کہانی سنا رہی ہے ۔ مغلیہ وقت کی یہ مسجد ملک کے تاریخی آثاثوں میں سے ایک ہے جس کی وقتاً فوقتاً تعمیر نو تو ہوتی رہی ہے لیکن آج کے دور میں بھی یہ عمارت پرانی یادیں تازہ کر رہی ہے ۔ اتر پردیش میں ہردوئی ضلع ہیڈکوارٹر سے تقریبا 24 کلومیٹر دور گوپامو قصبے کی تاریخی جامع مسجد کو تقریبا 450 برس قبل مغل شہنشاہ اکبر نے تعمیرکرایا تھا ۔ کہاجاتا ہے کہ مغل بادشاہ کا قافلہ وہاں سے گزررہا تھا اور یہاں پر بادشاہ نے اپنا خیمہ لگایا تھا۔ اسی لئے مغل بادشاہ نے یہاں پر اس مسجد کی تعمیر کرائی تھی۔
مغلیہ طرز کی اس مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جیسی ایودھیا میں تین گنبدوں والی بابری مسجد تھی اسی طرح اس مسجد کا ڈیزائن ہے اور یہ دیکھنے میں ہوبہو ویسی ہی لگتی ہے جیسی ایودھیا کی بابری مسجد تھی ۔ مولانا محمد عرفان ندوی کے مطابق چھوٹی اینٹوں اور گارے کو ملا کر اس مسجد کی تعمیر کی گئی تھی۔جامع مسجد کے برآمدے میں داخل ہوتے ہی عربی میں لکھا کتبہ اور اس پر لکھی آیتیں اس مسجد کی خوبصورتی اور اہمیت کو ظاہر کرتی ہے ۔ مغلیہ سلطنت کی اس عمارت کو بنانے میں کئی باتوں کا خاص طور پر خیال رکھا گیا تھا ۔خاص طور فن تعمیر اور فنکاری کی نظر سے اس عمارت کی کئی خاص چیزیں تھیں جو مغلیہ دور کی یاد دلاتی ہے ۔
اس عمارت کی دیواریں چار سے پانچ فٹ چوڑی ہیں اور اس کے گنبدوں کی اونچائی بھی کئی فٹ اونچی ہے جس کی وجہ سے سردیوں کے مہینے میں سردی اور گرمیوں کے مہینے میں گرمی کا نمازیوں کو احساس تک نہیں ہوتا تھا ۔ عمارت کو بنانے میں چھوٹی اور بڑی اینٹوں کے استعمال کے ساتھ ساتھ پتھروں کا بھی استعمال کرکے ایک خاص تکنیک سے ایک دوسرے سے جوڑا گیا ہے۔اس مسجد کی تعمیر کے وقت اس بات کا بھی خاص خیال رکھا گیا تھا کہ نماز میں تلاوت کی آواز ایک ہال سے دوسرے ہال تک بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ سکے۔مسجد میں دو بڑے ہال ہیں اور ایک بڑا میدان جس میں تمام لوگ نماز اداکر سکتے ہیں ۔
انس فاروقی بتاتے ہیں کہ گوپامو کے ہی شیخ حبیب اللہ چشتی اکبر کے درباری تھے ۔اکبر نے انہیں ہی اس مسجد کی مکمل تعمیر کی ذمہ سونپی تھی۔شیخ حبیب اللہ چشتی کے نام سے یہاں ایک محلہ بھی ہے جسے چشتی محلے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ شیخ حبیب اللہ چشتی شیخ تاج الدین چشتی کے پوتے تھے جنہوں نے التمش کے وقت گوپامو فتح کیا تھا۔ یہاں کے رہنے والے مولانا محسن الدین قاسمی نے بتایا کہ گزرتے وقت کے ساتھ جب جب یہ عمارت کمزور پڑنے لگی تو اس کی تعمیر نو ہوتی رہی ۔ تقریباً 1800 کے آس پاس پرنس آف ار ٹ کے نواب محمد بالاجا نے اس کی تعمیر نو کرائی تھی جب یہ عمارت کچھ برسوں بعد گرنے لگی تو 2007 میں انجمن شباب لکھنؤ نامی تنظیم نے اس کی تعمیر نو کرائی جس کی وجہ سے یہ بلند مسجد آج بھی اپنی تاریخ کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔