پچھلے سال میرا شیخ بھرکیو قصبے میں شیخ بھرکیو کے مزار پر جانا ہوا۔ یہ سندھ میں حیدرآباد سے 30 کلومیٹر دور ہے۔ اس مزار پر یہ میرا پانچواں چکر تھا جو میں نے اپنی کتاب کے لیے کیا۔
جب میں بزرگ کے مزار میں داخل ہوا، تو ایک بوڑھی عورت نے چلا کر مجھے پہلے اجازت لینے کے لیے کہا۔ انہوں نے مجھے تب تک رکنے کے لیے کہا جب تک وہ مزار کا فرش صاف نہیں کر لیتیں۔ پھر ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگیں:
یہ پیر صرف میرا ہے۔ تمہیں میری اجازت لینی ہوگی۔
میں دروازے پر کھڑا ان کی اجازت کا انتظار کرتا رہا، اور وہ واپس فرش صاف کرنے میں جت گئیں۔ میں حیران تھا کہ وہ پہلے سے چمکدار فرش کیوں صاف کر رہی ہیں۔
جب وہ اپنا کام ختم کر چکیں اور مجھے اندر جانے کی اجازت ملی تو میں نے ان سے اس بارے میں دریافت کیا۔ “میں جانتی ہوں کہ یہ صاف ہے، لیکن میں جب بھی یہاں آتی ہوں، تو مجھے قبر اور فرش کو مور کے پروں سے صاف کر کے سکون ملتا ہے۔”
سندھ کے تقریباً ہر مزار پر آپ کو اس طرح کے عمر رسیدہ افراد ضرور ملیں گے، جو یا تو دیواروں سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوتے ہیں، قرآن پڑھ رہے ہوتے ہیں، یا مزار کے فرش پر سو رہے ہوتے ہیں۔ یہ مزارات ان کے لیے ایک پناہ کی طرح ہوتے ہیں۔