نئی دہلی: فاطمہ بھٹو نے کہا ہے کہ فرقہ واریت کی بنیاد پر ہونے والی ہلاکتوں میں شیعہ فرقے کے افراد کی ہلاکتیں ہندوؤں اور عیسائیوں سے کہیں زیادہ ہوگئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے پاکستان ایک آفت زدہ ملک بن گیا ہے۔
جمعہ کے روز ہندوستانی روزنامہ ’دی ہندو‘ میں شایع ہونے والے ایک مضمون میں انہوں نے تحریر کیا کہ ’’متاثرین اور مجرمین دونوں ہی ہرجگہ موجود ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اسماعیلی مسلمانوں کی ایک پُرامن برادری تھی، جو ملک کی شیعہ اقلیت سے قریب تر تھی، اور یہی وجہ ہے کہ انہیں نشانہ بنایا گیا۔
فاطمہ بھٹو نے کہا ’’پاکستان کے 70 فیصد مسلمان سنّی ہیں۔ اور مسلم اکثریت کے حامل اس ملک میں قدامت پسند اور بنیاد پرست گروہوں کی جانب سے ہندوؤں اور عیسائیوں کو تشدد کے اس قدر بڑے خطرے کا سامنا نہیں ہے، جیسا کہ شیعہ مسلک کے لوگوں کو خطرے کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ہم طویل عرصے تک لوگوں کو مرتے ہوئےنہیں دیکھ سکتے، محض اس لیے کہ مرنے والے ہمارے اپنے نہیں ہے۔ ہلاکتوں کی فہرست تیزی سے مخصوص سے عام لوگوں تک منتقل ہورہی ہے۔
فاطمہ بھٹو نے کہا کہ کیا آپ ہزارہ ہیں؟ آپ شیعہ ہیں؟ کیا آپ ایک احمدی ہیں؟ اگر آپ ان میں سے کوئی ہیں تو آپ کو قتل کردیا جائے گا۔
بنگلہ دیش میں متعدد بلاگرز کے بہیمانہ قتل کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جلد ہی یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا آپ لبرل ہیں؟
انہوں نے کہا کہ عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف کے حمایتی اور ملک کے اندر اور بیرون ملک مقیم نوجوان پاکستانی پہلے ہی انٹرنیٹ پر اپنی پوسٹنگ کے ذریعے کسی پر بھی حملہ کردیتے ہیں۔ جو بھی صحافی ان کی پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے، وہ ان کی نظر میں ’لفافہ جرنلسٹ‘ ہے۔ یعنی عقل استعمال کرنے کے بجائے ان کے خلاف برے الفاظ ہی استعمال کیے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جلد ہی بنگلہ دیش کی طرح آپ سے یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا آپ ایک مصنف ہیں؟
فاطمہ بھٹو نے کہا کہ یہاں تشدد ہر جگہ موجود ہے، دھمکیوں کی صورت میں اور پُرتشدد کارروائیوں کی صورت میں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہولناک حملوں سے دوچار ہر صوبہ بھولنے کی بیماری کاشکار ہے۔ سندھ کی انتہائی بدعنوان حکومت 43 افراد کا تحفظ نہ کرنے کے جرم کا دفاع کررہی ہے۔ وزیراعلیٰ کہتے ہیں کہ دہشت گردی پورے ملک میں ہورہی ہے، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں بھی۔
فاطمہ بھٹو نے یاد دلایا کہ پاکستان میں دسمبر کےد وران سزائے موت پر پابندی ختم کردی گئی تھی۔ پچھلے چھ مہینوں کے دوران لگ بھگ 100 افراد کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ پاکستان میں 8000 قیدی سزائے موت کے منتظر ہیں، ان میں سے ایک ہزار سے زیادہ کی تمام اپیلیں مسترد کی جاچکی ہیں۔
انہوں نے کہا ’’یہ پشاور اسکول پر سفاکانہ حملے کا ردّعمل تھا، کہ سزائے موت کے مجرموں کو پھانسی دینے سے ہم محفوظ ہوجائیں گے۔ لیکن اس کے بعد سے ہمیں کہیں زیادہ خونریزی دیکھنی پڑی ہے۔