صحت برقرار رکھنے کے لیے ایک فرد کو روزانہ۲۸۰گرام سبزیاں یا ان کا جوس استعمال کرنا چاہیے۔ ان میں ۴۰فیصد پتوں پر مشتمل سبزیاں‘۳۰فیصد جڑوں اور ۳۰فیصد پھلیوں (یعنی بینگن‘ بھنڈی توری‘ کدو وغیرہ) پر مشتمل ہونا چاہئیں۔
تقریباً سبھی سبزیاں اور پھل مختلف غذائی اجزاء اور وٹامنز سے مالا مال ہوتے ہیں۔ لیموں جیسی ترش سبزیوں کے علاوہ کسی میں وٹامن سی نہیں ہوتی۔ اگر کسی سبزی میں اس کی کچھ مقدار ہوتی بھی ہے تو وہ پکانے کے دوران ضائع ہوجاتی ہے۔ اناج اور
غلے میں وٹامن سی بالکل نہیں ہوتی لیکن بہت سے پھلوں میں اس کی وافر مقدار پائی جاتی ہے۔
سبزیوں میں تین چوتھائی پانی ہوتا ہے تاہم مختلف سبزیاں مختلف مقدار میں معدنی اجزاء اور وٹامنز رکھتی ہیں۔ کچھ سبزیوں میں آئرن زیادہ ہوتا ہے تو کچھ میں کیروٹین۔ کسی فعال اور صحت مند فرد کی خوراک کے لیے سبزیوں کی قسم اور مقدار کا تعین اس کی صحت کے مطابق کیا جاتا ہے۔بدقسمتی سے انسان اپنی خوراک کے غلط یا صحیح استعمال کا خیال نہیں رکھتے جب کہ حیوانوں کی جبلت میں غلط یا صحیح چارے کے انتخاب کی صلاحیت فطری انداز میں کام کرتی ہے۔ تمام حیوان جب وہ بیمار ہوں تو کچھ نہیں کھاتے لیکن جب وہ تندرست ہوں تو اس وقت کھاتے ہیں جب انہیں ضرورت ہو اور اتنا ہی کھاتے ہیں جتنی انہیں ضرورت ہوتی ہے اور صرف وہ چیز کھاتے ہیں جو ان کے لیے موزوں اور مناسب ہو۔ بہت کم یہ بات دیکھنے میںآتی ہے کہ کوئی حیوان ضرورت سے زیادہ کھائے۔ لیکن انسان شعور کی نعمت سے مالا مال ہونے کے باوجود اکثر اوقات بے وقوفی کی حد تک بسیار خوری اور ممنوعہ یا نقصان دہ غذائی عادتوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ دراصل ایسے لوگوں کے نزدیک جسمانی ضرورت کی بجائے ذائقہ زیادہ اہم ہوتا ہے اور اب جدید طرز حیات کا ایک المناک پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ سبزیوں اور سلاد کے استعمال کو ترک کرکے مسالے دار چٹپٹے اور مرغن کھانوں کو روز مرہ خوارک کا حصہ بنایا جاچکا ہے۔